کراچی : کلاسیکل مو سیقی گھرانے کے چشم و چراغ استاد اسد امانت علی خان کو بچھڑے آٹھ برس بیت گئے
آواز وہ جادو سا جگاتی ہوئی آواز
مدہوش دل و جاں کو بناتی ہوئی آواز
اسد امانت علی خان، استاد امانت علی خان کے فرزند تھے۔ انہیں فن توورثے میں ملاہی لیکن شناخت اپنی صلا حیتوں سےمنوائی اور خاندان کی شہرت میں چار چاند لگادیئے۔
نیم کلاسیکل گائیکی کے نمائندہ گلوکار اسد امانت علی خان 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اسد امانت علی خان، استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی، استاد حامد علی خان کے بھتیجے اورشفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔
انہیں موسیقی کا فن اپنے والد امانت علی خان سے ورثے میں ملا لیکن انھوں نے اپنی شناخت علیحدہ سے منوائی۔ اسد امانت علی خان نے اپنی گائیگی کا آغاز 10 سال کی عمر سے کیا اور ایف اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد موسیقی کو ہی پیشہ بنایا۔
اسد امانت علی خان نے کلاسیکل موسیقی سے تعلق رکھنے والے خاندان میں چار چاند لگائے۔ ان کی غزلیں اور کلاسیکل راگ کو عالمی شہرت ملی۔
اپنے چچا استاد حامد علی خان کے ساتھ ان کی جوڑی کو بہت پسند کیا گیا، انیس سو پچپن میں پیدا ہو نے والےاستاد اسد امانت علی نے ابھی زندگی کی باون بہاریں دیکھیں تھیں۔
فن مو سیقی کے پرستار ابھی تشنہ ہی تھے کہ صدارتی ایوارڈ یا فتہ یہ فنکا ر آٹھ اپریل دو ہزار سات کوراہی ملک عدم ہوا۔اسد امانت علی خان آج ہم میں نہیں مگر ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت آج بھی سما عت میں رس گھو لتی ہیں۔
انہیں صدارتی ایوارڈ پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا تاہم ایوارڈ کے فوری بعد ہی ان کی طبیعت ناساز ہوگئی اور وہ علاج کیلئے لندن چلے گئے۔ آٹھ اپریل 2007 کو 52 برس کی عمر میں ان کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔