ہندوستان کے شمالی شہرآگرہ میں بعض ہندو تنظیموں کی جانب سے تقریباً 200 مسلمانوں کا مذہب ’تبدیل‘کروانے کے واقعہ پر بدھ کو پارلیمان میں زبردست ہنگامہ ہوا اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکمراں بی جے پی پر ملک کے سیکولر اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا۔
یہ واقعہ پیر کا ہے جب آگرہ کی ایک کچی بستی میں رہنے والے تقریباً 50 غریب مسلمان خاندانوں کو ’گھر واپسی‘ کے نام پر ہندو بنانےکا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس تقریب کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوئی تھیں جن میں ٹوپی پہنے ہوئے کچھ مسلمان ایک ہندو مذہبی تقریب میں حصہ لیتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
تقریب وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور دھرم جاگرن منچ کی جانب سے منعقد کرائی گئی تھی جن کے اہلکاروں کا کہنا ہے جن ہندوؤں نے ماضی میں کوئی دوسرا مذہب قبول کر لیا تھا اب انھیں ’گھر واپس‘ لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ پروگرام عرصے سے جاری ہے۔
لیکن جن مسلمانوں کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انھوں نے خود اپنی مرضی سے ہندو مذہب قبول کیا تھا، ان کا اب الزام کہ انھیں ’دھوکے‘ سے تقریب میں بلایا گیا تھا اور تنظیم کے مقامی رہنماؤں نے انھیں راشن کارڈ اور شناختی کارڈ بنوانے کا لالچ دیا تھا۔
لیکن بجرنگ دل کے مقامی رہنما اجو چوہان کا کہنا ہے ملسمانوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا تھا اور اب وہ ’خوف‘ کی وجہ سے ان پر الزام لگا رہے ہیں۔

اس کے برعکس مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ خوف کی وجہ سے تقریب میں شریک ہوئے تھے اور انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ انھیں ہندو بنایا جارہا ہے۔ ان میں سے زیادہتر لوگ کوڑا اٹھانے کا کام کرتے ہیں اور ان کا تعلق مغربی بنگال اور بہار سے ہے۔
ضلعی انتظامیہ نے اس سلسلے میں ایک مقدمہ قائم کیا ہے کیونکہ ملک میں لالچ دے کر مذہب تبدیل کرانا ایک جرم ہے اور مذہب تبدیل کرنے سے پہلے ضلعی انتظامیہ کو مطلع کرنا ضروری ہے۔
Comments
ایک تبصرہ برائے “بھارت میں 200 مسلمانوں کوزبردستی ہندو بنالیا گیا”