ملکہ ترنم نور جہاں کی آج 14ویں برسی منائی جارہی ہے

سروں کی ملکہ اور ترنم سے بھرپور آواز کی مالک میڈم نور جہاں کو بچھڑے چودہ برس بیت گئے ہیں۔

ملکہ ترنم نور جہاں برصغیر کی وہ گلوکارہ ہیں، جنھیں سن کر دل کے تار بج اٹھتے ہیں، آواز اتنی سریلی ، مدھر تھی کہ سننے والے پر سحر طاری ہوجاتا ہے۔

 ستمبر 1926 کو قصور میں پیدا ہونے والی اللہ وسائی نے نور جہاں کے نام سے شہرت پائی، نور جہاں  نے موسیقی استاد بڑے غلام علی خان سے سیکھی اور اپنے فلمی فنی کیرئیر کا آغاز صرف 9 برس کی عمر میں برصغیر پاک و ہند میں بننے والی اولین پنجابی فلم شیلا عرف پنڈ دی کڑی میں بطور گلوکارہ اور چائلڈ اسٹار پرفارمنس دی۔

گلیمر کی دنیا سے لے کر جنگ کے محاذ تک ملکہ ترنم نور جہاں نے اپنی آواز کے سحر سے سب کو اپنی آواز کے سحر میں جکڑے رکھا۔

نور جہاں کے سروں کے آگے کسی کا دیا نہ جلتا تھا، کہتے ہیں اگر نور جہان پاکستان نہ آتی تو شاید لوگ لتا منگیشکر کا نام بھی نہ جانتے، لتا منگیشکر نے اپنے آڈیشن میں میڈم کا گایا ہوا گیت گایا تھا جبکہ محمد رفیع صاحب کے ساتھ میڈم نور جہاں نے صرف ایک گیت گایا تھا۔

میڈم نورجہاں ایک عہد تھی، جو دنیائے فانی سے تو کوچ کر گئیں لیکن ان کی آواز نسلوں تک گونجتی رہے گی۔

ملکہ ترنم نور جہاں 23 دسمبر 2000 کو طویل علالت کے باعث کراچی میں انتقال کر گئیں تھیں۔

اس موقع پر لاہور اور کراچی کے نگاہ فانوں کے علاوہ مختلف ثقافتی مراکز میں ملکہ ترنم نور جہاں کی یاد میں سیمینار اور تقریبات کا انعقاد کیا جائیگا، جس میں شوبز اور موسیقی سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات اور مرحومہ کے اہلخانہ کے افراد شریک ہوں گے اور ان کی لازوال نئی نئی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا جائیگا۔