لاہور: یونان کشتی حادثے کی تحقیقات کیلیے عدالتی کمیشن بنانے کی درخواست پر عدالت نے وفاقی حکومت اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے درخواست پر سماعت کی جبکہ جوڈیشل ایکٹوازم پینل کے وکیل شبیر اسماعیل نے دلائل دیے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ یونان کشتی حادثے کے حقائق منظر عام پر لانے کیلیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے، کمیشن سپریم کورٹ کے 3 ججز پر مشتمل ہونا ضروری ہے۔
استدعا کی گئی کہ کشتی ڈوبنے کا حادثہ کیوں پیش آیا اور اس کی وجوہات کیا تھیں؟ ذمے داروں کے تعین کیلیے عدالتی کمیشن تشکیل دینے کا حکم دیا جائے۔
حادثے کی حتمی رپورٹ میں اہم انکشاف
اگست میں یونان کشتی حادثے کی حتمی رپورٹ وزارت داخلہ کو بھجوا دی گئی تھی جس میں خاندانوں اور رشتے داروں کی معلومات پر 147 انسانی اسمگلرز کی نشاندہی کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق واقعے کے بعد 163 مقدمات درج ہوئے جبکہ 3 انکوائریاں مکمل کی گئیں، کریک ڈاؤن کے دوران 36 انسانی اسمگلرز کو گرفتار کیا گیا اور 32 بیرون ملک ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایف آئی اے نے 262، وزارت خارجہ نے 278 متاثرہ خاندانوں کی فہرست تیار کیں، واقعے میں 12 پاکستانیوں کو بچا لیا گیا، 262 لواحقین کے ڈی این اے سیمپل لیے گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ نادرا کو 82 افراد کے فنگر پرنٹس کا ڈیٹا فراہم کیا گیا، 15 مقتولین کے فنگر پرنٹس میچ کر گئے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ متاثرین کی اکثریت پاکستان سے ای ویزہ پر بیرون ملک سفر کر کے لیبیا پہنچی، لیبیا سے وہ مچھیروں کی کشتی پر یونان کیلیے روانہ ہوئے تھے۔