بھارت میں گزشتہ تین سال کے دوران 13لاکھ سے زائد لڑکیاں اور خواتین کے لاپتہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بھارتی وزارت داخلہ کی طرف سے گزشتہ ہفتے پارلیمان میں پیش کردہ اس رپورٹ میں خواتین کے حوالے سے تشویش ناک رپورٹ سامنے آئی۔
وزارت داخلہ نے (این سی آر بی) کے فراہم کردہ اعدادو شمار کی بنیاد پر اپنی رپورٹ میں بتایا کہ سال 2019 ء سے 2021 ء کے درمیان بھارت میں 13.13 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین لاپتہ ہوئیں، جن کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 18 سال سے زیادہ عمر کی لاپتہ ہونے والی خواتین کی تعداد 10 لاکھ 61 ہزار 648 تھی جب کہ 18سال سے کم عمر کی دو لاکھ 51 ہزار 430 لڑکیاں بھی لاپتہ ہوگئیں۔
ایک لاکھ 60180 خواتین مدھیہ پردیش سے لاپتہ ہوئیں جو سب سے زیادہ تعداد ہے، بی جے پی کی حکومت والی اس وسطی ریاست سے تین سال کے دوران 18سال سے کم عمر کی اڑتیس ہزار دو سو چونتیس لڑکیاں بھی لاپتہ ہو چکی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر سے سال 2019 سے 2021 کے درمیان 9765 خواتین لاپتہ ہو گئیں۔ ان میں 18 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کی تعداد آٹھ ہزار چھ سو سترہ اور 18برس سے کم عمرکی لڑکیوں کی تعدادایک ہزار ایک سو اڑتالیس تھی۔
جموں و کشمیر دوسرے نمبر پر ہے، پہلے نمبر پر قومی دارالحکومت دہلی ہے جہاں مذکورہ مدت کے دوران 61054 خواتین اور 18برس سے کم عمر کی 22919 خواتین لاپتہ ہوئیں۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ترنمول کانگریس کی حکومت والی ریاست مغربی بنگال کا نمبر دوسرا ہے، جہاں لاپتہ ہونے والی خواتین اور 18 برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی تعداد بالترتیب ایک لاکھ چھپن ہزار نو سو پانچ اور چھتیس ہزار چھ سو چھ تھی۔
مہاراشٹر میں ایک لاکھ ستاسی ہزار چار سو خواتین اور 18برس سے کم عمر کی تیرہ ہزار 33 لڑکیاں لاپتہ ہوئیں، جن کے بارے میں حکام پتہ لگانے میں ناکام ہیں۔
اوڈیشہ میں 70222خواتین اور 16649لڑکیوں کے لاپتہ ہونے جب کہ قبائلی اکثریتی ریاست چھتیس گڑھ میں 49116 اور 10817 لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کے کیس درج ہوئے۔
این سی ای آر بی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ تعداد لاپتہ ہوجانے والی خواتین اور لڑکیوں کے متعلق تھانوں میں درج کرائی گئی رپورٹوں کی بنیاد پر ظاہر کی گئی۔
تاہم سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہے، کیونکہ بہت سے خاندان لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کی رپورٹس متعدد اسباب کی بنا پر درج نہیں کراتے، جن میں سماجی بدنامی کا عنصر بھی شامل ہے۔