برطانیہ کی درجنوں کمپنیوں نے گزشتہ سال ہفتے میں 3 دن چھٹی اور 4 دن کام کا تجربہ کیا جو کامیاب قرار دیا جا رہا ہے اور اکثریت نے اس کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق گزشتہ سال برطانیہ کی 61 کمپنیوں ںے اپنے ملازمین کو ہفتے میں 3 چھٹیاں دیں اور 34 گھنٹے یعنی صرف 4 دن کام کرایا جب کہ تنخواہ میں کوئی کٹوتی نہیں کی گئی۔ جو کامیاب رہا اور رپورٹ کے مطابق 56 کمپنیوں نے ہفتے میں 4 دن کام کے تجربے کو تاحال برقرار رکھا ہے جب کہ ان میں سے 18 کمپنیاں اسے مستقل اختیار کرنے جا رہی ہیں۔
برطانیہ میں قائم ایک ریسرچ آرگنائزیشن کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق یہ دنیا میں ہفتے میں چار دن کام کا سب سے بڑا آزمائشی پراجیکٹ تھا۔ جس کا مقصد دفتر یا کام اور زندگی کے دیگر معمولات میں توازن لانا تھا۔
اس آمائشی پراجیکٹ یا ٹرائل میں برطانیہ کے مختلف علاقوں میں قائم کمپنیوں کے 2900 ملازمین کو شامل کیا گیا۔ ان میں اسٹیلر اسیٹ مینیجمنٹ کمپنی اور ڈیجیٹل مینوفیکچرر ریولین روبوٹکس بھی شامل ہیں۔ اکثریت نے رائے دی کہ ہفتے میں چار دن کام کر کے بھی پیداوار یا کام کا معیار و مقدار برقرار رکھا گیا۔
سروے میں ملازمین نے بتایا کہ ان کی ذاتی زندگی اور کام کے دورانیے میں توازن بہتر ہوا ہے جس سے اُن پر مثبت اثر پڑا جبکہ ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ چار دن کام کی پالیسی کی وجہ سے بہت سے ملازمین نے اپنی ملازمتوں کو نہ چھوڑنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
ہفتے میں چار دن کام کی مہم چلانے والی تحریک کے ڈائریکٹر جو رائل نے ایک بیان میں کہا کہ ’اس آمائشی پراجیکٹ کی کامیابی اور سروے کے نتائج ہفتے میں چار دن کام کی طرف ایک اہم بریک تھرو ہے۔‘
سٹیزن ایڈوائس گیٹ ہیڈ کے چیف آپریٹنگ آفیسر پال اولیور نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ملازمت پر رہنے اور ملازمت حاصل کرنے میں بہتری آئی ہے اور ٹرائل کے دوران ملازمین کی بیماری کی سطح بہت کم ہو گئی۔ ملازمین کم وقت میں زیادہ کام کر لیتے ہیں۔
سروے میں بہت سے ملازمین نے بتایا کہ اُن کے لیے ایک دن زیادہ چھٹی تنخواہ کے مقابلے میں اہم ہے۔