کراچی: چیئرمین ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) حسن بخشی نے 5 سالوں کے دوران شہر قائد میں 85 ہزار غیر قانونی عمارتیں تعمیر ہونے کا انکشاف کر دیا۔
حسن بخشی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ کراچی میں 5 سالوں میں ایک لاکھ سے زائد عمارتیں تعمیر ہوئیں جن میں سے صرف 15 ہزار منظور شدہ ہیں جبکہ باقی 85 ہزار عمارتیں غیر قانونی تعمیر ہوئیں۔
چیئرمین آباد نے کہا کہ لیاری میں 5 منزلہ رہائشی عمارت گرنے کا واقعہ افسوسناک ہے، گزشتہ چند سالوں میں 12 ایسے واقعات میں 150 اموات ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں سب سے زیادہ مخدوش عمارتیں کس ضلع میں ہیں؟
انہوں نے کہا کہ عمارتوں کی تباہی کی وجہ کرپشن، لالچ اور حکومتی بے حسی ہے، سندھ حکومت نے مخدوش عمارتوں پر کوئی قانون سازی نہیں کی، 700 مخدوش عمارتوں کا فوری حل نکالا جائے اور نیسپاک سے معائنہ کروایا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر قانونی فلورز سے عوام کی جان و مال داؤ پر لگ گئی، نیسپاک اور این ڈی ایم اے کو کردار ادا کرنا ہوگا، متاثرین کا معاوضہ 25 لاکھ روپے کیا جائے۔
حسن بخشی نے کہا کہ سندھ میں مخدوش عمارتیں گرانے کا قانون ہی نہیں ہے، مخدوش عمارتیں گرانے کیلیے قانون سازی کی جائے، حکومت، بلڈرز، لینڈ اور فلیٹ مالکان اور آباد سب آن بورڈ ہوں، سب کو گرائی گئی عمارت کی تعمیر میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
چیئرمین آباد نے مزید کہا کہ دہلی کالونی، لیاقت آباد اور لیاری میں مخدوش عمارتوں کا جال ہے، سندھ حکومت پنجاب جیسی ہاؤسنگ اسکیم شروع کرے۔
واضح رہے کہ لیاری کے علاقے بغدادی میں رہائشی عمارت گرنے کے افسوسناک واقعے کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے شہر میں مخدوش عمارتوں کے اعداد و شمار جاری کیے تھے۔
ڈی جی ایس بی سی اے نے بتایا تھا کہ پورے شہر میں 578 مخدوش عمارتیں ہیں جبکہ سب سے زیادہ ناقابل رہائش عمارتوں کی تعداد ضلع جنوبی میں 456 ہے، ناقابل رہائش عمارتوں کے حوالے سے ضلع وسطی دوسرے نمبر پر ہے جہاں 66 مخدوش بلڈنگز ہیں، اسی طرح ضلع کیماڑی تیسرے نمبر پر ہے جہاں ناقابل رہائش بلڈنگز کی کُل تعداد 23 ہے۔
کورنگی اور شرقی میں مخدوش عمارتوں کی تعداد 14 اور 13 ہے، ضلع ملیر میں تعداد 4 ہے۔ سب سے کم ناقابل رہائش دو عمارتیں ضلع غربی میں ہیں۔
ایس بی سی اے کی طرف سے تاحال مخدوش عمارتوں کو خالی کروانے کے اقدامات نہیں کیے گئے، اتھارٹی کی طرف سے ہر سال مون سون سیزن سے قبل مخدوش عمارتوں پر بینرز لگائے جاتے ہیں۔