یمن کے لیے کی 50 کروڑ ڈالر کا سعودی امدادی چیک اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا گیا

اقوام متحدہ

نیویارک : سعودی عرب نے یمن میں انسانی امداد کے کاموں کے لیے 50 کروڑ ڈالر کی رقم اقوام متحدہ کے حوالے کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سعودی شاہی دیوان کے مشیر اور کنگ سلمان امدادی مرکز کے نگراں ڈاکٹر عبداللہ الربیعہ نے مذکورہ رقم کا چیک اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے انسانی امور کے رابطہ کار مارک لوکوک کے حوالے کیا۔

یمن میں انسانی امداد کی کارروائیوں کی سپورٹ کے لیے سعودی عرب کی جانب سے یہ نئی رقم ایک سمجھوتے پر دستخط کے ذریعے پیش کی گئی۔

ڈاکٹر الربیعہ یمن میں انسانی صورت حال سے متعلق نیویارک میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس کے سیشن میں شریک تھے۔

سیشن میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس ، سعودی وزیر خارجہ ڈاکٹر ابراہیم العساف، سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل بن احمد الجبیر، امریکا میں سعودی عرب کی سفیر شہزادی ریما بنت بندر بن سلطان بن عبدالعزیز، اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے مستقل مندوب عبداللہ یحیی المعلمی، اسلامی کانفرنس تنظیم کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین اور بعض دیگر ممالک کے وزرا خارجہ موجود تھے۔

امدادی رقم کا چیک حوالے کرنے کے بعد ڈاکٹر عبداللہ الربیعہ نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ سعودی عرب اور برادر جمہوریہ یمن کو مربوط کرنے والی قدیم تاریخ دونوں ملکوں کے عوام کے بیچ مضبوط تعلقات کو جلا بخشتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی جانب سے یمن کے تمام علاقوں میں بنا کسی تفریق کے ضرورت مندوں تک امدادی سامان پہنچانے کا سلسلہ جاری رہے، ان میں حوثیوں کے زیر قبضہ علاقے بھی شامل ہیں۔

الربیعہ نے باور کرایا کہ مملکت کا کردار اور اس کی بڑی سپورٹ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں کے تعاون سے یمن میں قحط کو روکنے، وبائی امراض پر قابو پانے اور معیشت کو سہارا دینے میں مدد گار ثابت ہوئی۔

ڈاکٹر الربیعہ کے مطابق یمن میں بارودی سرنگوں کی صفائی سے متعلق سعودی پروگرام کے ذریعے یمنی اراضی سے 89761 سرنگوں کو ختم کیا گیا، اسی طرح مملکت کی جانب سے یمن کے صنعتی سیکٹر میں 640 ناکارہ مرکبات کو تبدیل کیا گیا۔

اس کے علاوہ حوثیوں کی جانب سے بھرتی کیے جانے والے بچوں کی واپسی کے بعد ان کی نفسیاتی بحالی کے سعودی پروگرام کے تحت 400 بچوں کو براہ راست تربیت دی گئی۔

شاہی دیوان کے مشیر نے واضح کیا کہ سعودی عرب نے 5.61 لاکھ یمنی پناہ گزینوں کو ٹھکانہ فراہم کرنے کے لیے انتہائی کوششیں کیں، مملکت اس بات کی شدید خواہاں رہی کہ ان افراد کو روزگار کے مواقع اور صحت اور تعلیم کی مفت خدمات فراہم کی جائیں یا پھر دیگر ممالک میں ان افراد کی دیکھ بھال کو ممکن بنایا جائے۔