صحرائے بلبل، جن کی بیماری کو سابق صدر مشرف نے سنجیدگی سے لیا

کراچی: خانہ بدوش خاندان سے تعلق رکھنے والی معروف فوک گلوکارہ ریشماں کو مداحوں سے بچھڑے 6 سال بیت گئے۔

ریشماں کا تعلق سرائیکی قوم اور خانہ بدوش خاندان سے تھا، انہوں نے انتہائی پسماندہ گھرانے میں آنکھ کھولی البتہ قسمت نے اُن کا ساتھ دیا جس کے بعد گلوکارہ نے ریڈیو پاکستان سے صرف 12 برس کی عمر میں اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا۔

انہیں فوک گلوکارہ کے طور پر باقاعدہ پہچان ملی، ریشماں نے اپنے کیرئیر میں ویسے تو بہت سے گانے گائے تاہم اُن کے مشہور ہونے والے گانوں میں ’’چار دنا دا پیار او ربا، اکھیوں کے آس پاس، بانئیں اور لگ دا دل میرا‘‘ شامل ہیں۔

غریب اور خانہ بدوش گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے گلوکارہ باقاعدہ تعلیم خاصل نہ کرسکیں تاہم وہ بہت کم عمری سے ہی صوفیا کرام کے مزاروں پر منقبت پڑھتی تھیں۔ ریشماں کو پذیرائی اُس وقت ملی جب انہوں نے معروف صوفی بزرگ حضرت لال شہباز قلندر کے مزار پر ’’ہو لعل میری‘‘ قوالی پیش کی۔

ریشماں کی آواز میں گائے جانے والے کئی گانے بھارتی فلموں میں بھی شامل کیے گئے۔

گلوکاری کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے بعد ریشماں کو ٹی وی میں آنے کا موقع ملا یہاں بھی انہوں نے انتھک محنت اور لگن سے بہت ہی کم وقت میں لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائی۔ اُن کی پذیرائی اور کلاموں کو دیکھتے ہوئے سابق بھارتی وزیر اعظم نے اپنے ملک کے دورے کی خصوصی دعوت دی۔

ریشماں کو طبیعت ناساز ہونے پر اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ابتدائی ٹیسٹ ہوئے تو رپورٹس میں کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص ہوئی، غربت کے باعث گلوکارہ اپنا مناسب علاج نہ کرواسکیں البتہ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں انہیں بھرپور امداد فراہم کی۔

ریشماں طویل علالت کے بعد 3 نومبر 2013 کو انتقال کرگئی، اُن کی خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ امتیاز اور ’’بلبل صحرا‘‘ کا خطاب بھی دیا۔