معاہدے پر عمل سے متعلق کتنی سنجیدگی دکھائی جاتی ہے، پاکستان پر نکتہ چینی کرنے والے اس کے کردار کے معترف ہوئے۔
اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ طویل جنگ کے بعد افغان عوام بھی اب امن چاہتے ہیں، دیکھنا ہوگاتفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اور امریکی حکام کو مبارکباد دیتا ہوں، پاکستان کی رائے میں یہ معاہدہ اہم پیش رفت ہے۔ طویل جنگ کے بعد افغان عوام بھی اب امن چاہتے ہیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ کیا معاہدے پر لچک دکھانے کے لیے فریقین تیار ہیں، دیکھنا ہوگا معاہدے پر عمل سے متعلق کتنی سنجیدگی دکھائی جاتی ہے۔ زلمے خلیل زاد نے خود کہا کہ پرتشدد کارروائیوں میں کمی دیکھی، اب دیکھنا ہے کہ افغان قیادت اپنے روڈ میپ کے لیے کیا اقدام کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جو سہولت کار کا کردار ادا کیا اسے سراہا گیا، پاکستان پر نکتہ چینی کرنے والے اس کے کردار کے معترف ہوئے۔ معاہدے کے بعد پومپیو سے تبادلہ خیال ہوا، 3 سے 4 نکات ان کے سامنے رکھے۔ پہلا نکتہ یہ اٹھایا کہ امن عمل خراب کرنے والے افغانستان میں اور باہر بھی ہیں۔ ان امن خراب کرنے والوں پر نظر رکھنی ہوگی۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دوسری چیز کہی کہ ایک مثبت عمل ہوا اسے جاری رکھنا ضروری ہے، یہ مثبت عمل مزید پیش رفت سے ہی برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ بین الافغان مذاکرات میں اب زیادہ تاخیر نہیں ہونی چاہیئے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کا اعتماد برقرار رہے۔
انہوں نے کہا کہ تیسرا نکتہ تھا افغانستان میں سیاسی عدم استحکام پر توجہ دینی ہوگی، ہم یہ نہیں چاہ رہے کہ افغانستان کی داخلی سیاست امن پر اثر انداز ہو۔ ہم نے پومپیو سے کہا کہ انہیں عالمی سطح کو مدد کے لیے متحرک کرنا ہوگا۔ اس کے لیے عالمی طور پر حمایت اور وسائل دونوں درکار ہوں گے۔
وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ توقع ہے اشرف غنی امن معاہدے کی اہمیت سےغافل نہ ہوں گے، امید ہے ماحول سازگار رکھنے میں وہ اپنا کردار ادا کریں گے۔