اسلام آباد: اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی حکومت کا بجٹ عوام دشمن قرار دے کر مسترد کردیا۔
اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے وفاقی حکومت کا بجٹ مسترد کردیا، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ غریب کش بجٹ ہے، اس کے نتیجے میں مہنگائی، بیروزگاری میں اضافہ ہوگا۔
مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بجٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اپنی نالائقی پہلے ن لیگ اور اب کرونا سے چھپانے کی کوشش کی، مہنگائی، بیروزگاری، کاروباری بدحالی نے تاریخی ریکارڈ قائم کردئیے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنا ظلم ہے، بجٹ سے ملک کی رہی سہی معاشی سانسیں بھی رک جائیں گی، حکومت نے ن لیگ کے زیادہ ترقی اور کم مہنگائی کے فارمولے کو الٹ دیا۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ اور اس کے اہداف غیر حقیقی ہیں، عوامی مشکلات بڑھنے کا خدشہ ہے، 68 سال میں پہلی بار ملکی جی ڈی پی منفی ہوچکی ہے، آئندہ آئی ایم ایف اجلاس سے قبل حکومت منی بجٹ پیش کرے گی۔
مزید پڑھیں: مالی سال 2020-2021: 71 کھرب 30 ارب روپے کا بجٹ پیش، عوام کے لیے ریلیف
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ دو سال میں موجودہ حکومت نے قومی قرض میں 30 فیصد اضافہ کردیا، حکومت مزید اتنا ہی قرض اور لینے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ حکومت نے مایوس کن بجٹ پیش کیا پیپلزپارٹی اسے مسترد کرتی ہے، ایک روایتی بجٹ پیش کیا گیا ہے، یہ پی ٹی آئی اور آئی ایم ایف کا عوام دشمن بجٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ میں عام آدمی کو نہیں امیر طبقے کو ریلیف ملا ہے، بجٹ میں تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، اس بجٹ میں پنشنز میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ بجٹ مکمل طور پر غلط بیانی پر مبنی ہے، حکومت عوام کی جیب سے پیٹرول لیوی کی مد میں 200 ارب رپے اضافی لے گی، حکومت کے پاس ریونیو نہیں ہے قرضہ لے کر بجٹ بنارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت جانتی ہے ان کے پاس ریونیو نہیں ہے، لیکن خود کو دھوکا دے رہے ہیں، بجٹ کی حقیقت 3 ماہ بعد سامنے آجائے گی۔
پیپلزپارٹی رہنما نوید قمر کا کہنا تھا کہ بجٹ میں سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا، افراط زر سے قوت خرید میں کمی کے باعث تنخواہ میں اضافے کی توقع تھی، صوبوں سے مل کر اخراجات پر بھی بجٹ میں کوئی بات نظر نہیں آئی۔