پرویز الہٰی کے حالیہ انٹرویو کے بعد پنجاب کی سیاسی صورتحال تبدیل ہوگئی

وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے حالیہ انٹرویو کے بعد پنجاب کی سیاسی صورتحال تبدیل ہوگئی اور حکومتی اتحادیوں کے اجلاس میں بھی موضوع بحث رہا۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے اجلاس کا اندرونی احوال اے آر وائی نیوز نے حاصل کرلیا ہے جس میں پتہ چلا ہے کہ اتحادیوں کے اجلاس میں بھی وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کے اے آر وائی نیوز کو دیے گئے حالیہ انٹرویو کی بازگشت سنی گئی اور اس کے مندرجات موضوع گفتگو رہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس کے شرکا کی اکثریت کا خیال ہے کہ پرویز الہٰی کے حالیہ انٹرویو کے بعد پنجاب کی سیاسی صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز آصف زرداری اور چوہدری شجاعت سے ملاقات کا احوال بھی بتایا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی صورتحال کے لیے آئندہ 48 گھنٹے انتہائی اہم ہیں اور سابق صدر آصف زرداری نے شہباز شریف کو آج کے دن دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا کہا ہے۔

ذرائع کے مطابق پرویز الہٰی اپنی پوزیشن واضح کریں گے تو اتحادی جماعتیں ان سے بات چیت پر غور کر سکتی ہیں جب کہ چوہدری شجاعت حسین نے پرویز الٰہی سے بات کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں شرکا نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ پرویز الہٰی سے براہ راست بات نہ کی جائے کیونکہ وہ قابل اعتبار نہیں ہیں جس کے بعد شہباز شریف نے واضح کیا کہ ہم پرویز الہٰی سے کوئی بات نہیں کریں گے بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب سے جو بات کرنی ہے وہ آصف زرداری اور چوہدری شجاعت حسین کریں گے۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن پرویز الہٰی کو ساتھ ملانے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم ان کوششوں کے ساتھ وہ ضمانتیں بھی مانگ رہی ہے۔ ن لیگ نے چوہدری شجاعت سمیت چند شخصیات کو پرویز الہٰی کی گارنٹی دینے کا کہا ہے۔

ذرائع ق لیگ کا کہنا ہے کہ سالک حسین اور طارق بشیر چیمہ نے گارنٹی کے لیے وقت مانگا ہے اور کہا ہے کہ پرویز الہٰی کی گارنٹی تو دے سکتے ہیں لیکن مونس الہٰی کی گارنٹی مشکل ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے گزشتہ روز اے آر وائی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کے موقف کے برخلاف سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی حمایت میں کھیل کر سامنے آگئے تھے۔

انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ ہمارے محسن ہیں، محسنوں کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔ واضح کردوں کہ جنرل (ر) باجوہ کےخلاف اب اگربات کی گئی تو سب سےپہلے میں بولوں گا۔