پاکستان میں بغاوت کے قانون کی شق "124 اے” کیا ہے؟ جانیے

بغاوت

لاہور ہائی کورٹ نے گزشتہ روز بغاوت کے قانون کے سیکشن 124 اے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مذکورہ قانون کو آئین سے متصادم قرار دیا۔

عدالت کے اس فیصلے کو تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ قانون کی یہ دفعہ کیا ہے اس کی کیا تاریخ اور اس کی سزا کتنی ہے؟ آئیے جانتے ہیں !!

پاکستان کے نامور اور سینئر صحافی ارشد شریف شہید نے اس قانون کے سدباب کیلئے ملک بھر کے وکلاء سے اپیل کی تھی کہ وہ اس قانون کیخلاف مشترکہ آواز بلند کریں تاکہ اس قانون سے جان چھڑائی جاسکے۔

اس قانون کی کیا تاریخ ہے؟
یہ متنازعہ قانون 1870 میں برطانوی سامراج کی جانب سے اس خطے میں متعارف کروایا گیا تھا۔ جسے انگریز اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کیلئے استعمال کیا کرتے تھے، اس دور میں بغاوت کا قانون غلاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جس کے تحت ثبوت نہ ہونے کے باوجود کسی کے بھی کہنے پر مقدمہ درج کرلیا جاتا تھا۔

خود برطانیہ نے اپنے ملک میں اس قانون سے 2009 میں جان چھڑائی تھی لیکن پاکستان اور انڈیا میں یہ قانون آج تک استعمال ہوتا رہا ہے۔

تاہم سپریم کورٹ آف انڈیا نے سال2022 میں اس قانون کو معطل کر دیا تھا، البتہ یہ قانون دونوں ملکوں کی تعزیرات میں اب بھی موجود ہے۔

بغاوت کے قانون کی سزا
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے میں کی گئی تشریح کے مطابق قانونی طور پر بننے والی وفاقی یا صوبائی حکومت کے خلاف لوگوں کو اکسانا اور ان کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔

اس قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر کم از کم سزا تین سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید جرمانوں کے ساتھ ہوسکتی ہے۔

پاکستان پینل کوڈ کے مطابق کوئی بھی شہری الفاظ کے ذریعے، بولے یا تحریری، یا اشاروں سے، یا ظاہری نمائندگی کے ذریعے، یا دوسری صورت میں، لوگوں کو نفرت یا حقارت میں لانے کی کوشش کرتا ہے، یا جوش یا بیزاری پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس پر قانون کے ذریعے قائم کردہ وفاقی یا صوبائی حکومت عمر قید کی سزا جس میں جرمانہ شامل کیا جا سکتا ہے، یا قید جو تین سال تک ہو سکتی ہے، جس میں جرمانہ شامل کیا جا سکتا ہے، یا صرف جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے۔