سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت جاری ہے جس میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کا بھی تذکرہ ہوا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا آج پھر آغاز ہوا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔
سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ ہم نے بھی اس معاملے میں درخواست دائر کی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار کی جانب سے بھی درخواست آئی، اچھے دلائل کو ویلکم کیا جائے گا جب درخواست کو نمبر لگے تو تب دیکھ لیں گے۔
اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے، فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہے، ان کی یہ پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں کہ ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔
عزیر بھنڈاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتا، 21 ویں ترمیم میں یہ اصول طےکر لیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کیلیے آئینی ترمیم درکار ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسارکیا کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اندرونی تعلق سے متعلق جنگ کے خطرات دفاع پاکستان کو خطرہ جیسے اصول 21 ویں ترمیم کیس فیصلے میں طے شدہ ہیں جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔ اس موقع پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ ملٹری کورٹس بھیجے گئے ملزمان پر سیکشن 2 ڈی ون لگائی گئی ہے یا 2 ڈی ٹو؟ کل کے بعد اسی معاملے کی وضاحت ضروری ہو گئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک سیکشن 2 ڈی ٹو لگائی گئی ہے، سیکشن 2 ڈی ون کا اطلاق بعد میں ہو سکتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایف بی ایل ای، ڈسٹرکٹ بار کیس فیصلے سویلین کا فورسز کے اندر تعلق سے متعلق کچھ ٹیسٹ اپلائی کرتا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیسے تعین ہو گا ملزمان کا عام عدالتوں میں ٹرائل ہو گا یا ملٹری کورٹس میں؟
اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ہمارے پاس دستیاب نہیں اور ایکٹ کی عدم دستیابی کے باعث صرف ہوا میں ہی باتیں ہو رہی ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم ماضی میں سویلین کیخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثال کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ماضی کی ایسی مثال کے الگ حقائق اور الگ وجوہات تھیں۔ جس پر ایڈووکیٹ عزیر بھنڈار نے کہا کہ شفاف ٹرائل کی بھی شرائط ہیں۔ جو کچھ بھی ہوگا وہ آئینی ترمیم سےہی ہو سکتا ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ ہوا اور انہوں نے کہا کہ ہم تو ابھی صرف ہوا میں بات کر رہے ہیں، 2 ڈی ٹو کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں معاونت کرنی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایمرجنسی اور جنگ کی صورتحال میں تو ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو سکتا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈار نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا اکثریتی فیصلہ بھی یہی شرط عائد کرتا ہے کہ جنگی حالات ہوں تب ہوگا۔ آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل اسٹرکچر جب کہ آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں۔ یہ تمام آرٹیکل بے شک الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے۔
عزیر بھنڈار ایڈووکیٹ نے کہا کہ بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے۔ سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا، کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے ملک میں بے چینی کی کیفیت ہوگی۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ ایف آئی آر میں کہیں بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہیں کیا گیا۔ آرمی اسپورٹس سمیت مختلف چیزوں میں شامل ہوتی ہے، اگروہاں کچھ ہو جائے تو کیا آرمی ایکٹ لگ جائے گا۔ اس موقع پر پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل نے سیکشن ٹو ڈی پڑھ کر سنایا
چیف جسٹس نے کہا کہ جب آپ آرمی کی بات کرتے ہیں تو اسکی سب اہم چیز مورال ہوتی ہے اور اگر مورال متاثر ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بھی دشمن کو ہوگا۔
اس موقع پر سماعت میں 30 منٹ کا وقفہ کر دیا گیا جب کہ دوران سماعت پنجاب پولیس کے حکام کے علاوہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب عرفان قادر بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔