سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: سپریم کورٹ کا حکمنامہ جاری، جسٹس سردار طارق مسعود کا نوٹ سامنے آگیا

فوجی عدالتوں میں ٹرائل

اسلام آباد : عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیس میں سپریم کورٹ نے پہلی سماعت کا مکمل حکمنامہ جاری کردیا، حکمنامے کےساتھ جسٹس سردارطارق مسعود کا نوٹ بھی سامنے آگیا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے معاملے پر پہلی سماعت کا مکمل حکمنامہ جاری کردیا ،حکمنامہ کے ساتھ جسٹس سردار طارق مسعود کا نوٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے بینچ سے علیحدگی اختیار کی۔

جسٹس سردار طارق کا نوٹ

جسٹس سردار طارق نے کہا کہ بینچ میں شامل کرنے سے پہلے مجھ سے مشاورت نہیں کی گئی، درخواستوں کے مقرر ہونے سے پہلے درخواست گزار اور انکے وکیل نے چیف جسٹس سے چیمبر میں ملاقات کی ملاقات کے اگلے روز درخواستوں کو سماعت کیلئے مقرر کردیا گیا، اس طریقہ کار کی اجازت دی جائے توچیف جسٹس کےاختیارپرسوال اٹھتاہے۔

سپریم کورٹ کے جج کا کہنا تھا کہ کیا سالوں سے زیر التواء مقدمات میں درخواست گزاروں کو چیف جسٹس سے ملنے کی اجازت ہوگی۔

انھوں نے نوٹ میں کہا کہ جسٹس فائزعیسیٰ کے مؤقف سے متفق ہوں، تحفظات کےباوجودجیلوں میں پڑےشہریوں کی اپیلیں سن رہاہوں، پانامہ کیس اس وجہ سےسناکہ5رکنی بنچ اسےقابل سماعت قراردے چکا تھا۔

جسٹس سردار طارق نے مزید کہا کہ میں پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کےحوالے سےفیصلےکاانتظارکررہاتھا ، ایکٹ پر یکطرفہ حکم امتناع کےبعدمیں کیس کےجلدفیصلےکی توقع کررہاتھا، ایکٹ کےتحت184(3)کاہرمعاملہ پہلے کمیٹی کےسامنےجاناچاہیے۔

جاری نوٹ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ ججزپرمشتمل کمیٹی درخواست میں عوامی مفادکاجائزہ لےکر3رکنی بینچ تشکیل دے گی ، سویلین کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کا مقدمہ قانون کےمطابق کمیٹی کےسامنےنہیں رکھاگیا، یہ توقع کرتےہوئےکہ قانون ختم ہوجائےگامعاملہ کمیٹی کےسامنےنہیں رکھاگیا۔

جج کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سےقانون پرعملدرآمدروکنےپرمیں مقدمات سننےمیں ہچکچاہٹ کاشکارتھا، میں نےچیف جسٹس سےپریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کیس کاجلد فیصلہ کرنےکی درخواست کی۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ کیس میں آنیوالےدرخواست گزارفوجی عدالتوں میں ٹرائل کاسامنانہیں کررہے، عام طورپرکسی بھی قانون کوچیلنج کرنےکیلئےدرخواست ہائیکورٹ میں دائرکی جاتی ہیں لیکن سپریم کورٹ میں آرمی ایکٹ کوعوامی مفادکےقانون کےتحت چیلنج کیاگیا۔

جسٹس سردار طارق کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانےیانہ چلانےکافیصلہ انفرادی طورپرملزمان کوسن کرکیاجاسکتاہے، فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست قانون کے خاتمےکومدنظر رکھ مقررہوئیں، قانون کےمطابق موجودہ9رکنی بینچ کی اپیل بڑےبینچ کےسامنےمقررہوگی۔

جسٹس طارق نے مزید لکھا کہ میں کیس سننےسےمعذرت نہیں کررہا، میں بینچ کے26تاریخ کےحکمنامہ پردستخط کرنےکی بجائےعلیحدہ نوٹ جاری کررہاہوں، میری رائے میں کیس کوپریکٹس پروسیجر ایکٹ کےفیصلےکےبعدمقررکیا جاناچاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ

دوسری جانب سپریم کورٹ کے حکمنامے میں جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ بھی شامل کیا گیا ، اپنے نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعتراض کی صورت میں جج کیساتھ ساتھ ادارے کی ساکھ کا بھی معاملہ ہوتا ہے، انصاف کی فراہمی کی غیر جانبداری مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ہونی چاہیے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ظاہری اور حقیقی غیر جانبدارانہ انصاف عوامی اعتماد اور قانون کی حکمرانی کیلئے ضروری ہے، عدالتی غیر جانبداری سے عوامی اعتماد ،شفاف ٹرائل ،قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بقاء برقرار رہتی ہے ۔

نوٹ میں کہا گیا کہ عدالتی نظام میں غیر جانبداری اخلاقی نہیں بلکہ عملی ہونی چاہیے،عدالتی نظام میں حقیقی غیر جانبدارانہ سے جمہوری روایات،شہریوں کی بنیادی حقوق کی حفاظت ہوتی ہے، اگر کسی جج پر اعتراض کی معقول وجہ ہو تو عوامی اعتماد برقرار رکھنے کیلئے بنچ سے الگ ہو جانا چاہیے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں تسلیم کرتا ہوں جواد ایس خواجہ میرے عزیز ہیں، ایک عام شہری کیلئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ درخواست گزار نے درخواست عوامی مفاد میں دائر کی یا زاتی مفاد میں، میں اعتراض کو ترجیح دیتے ہوئے خود کو بنچ سے علیحدہ ہو رہا ہوں، وفاقی حکومت کے اعتراضات کی روشنی میں خود کو بنچ سے الگ کرتا ہوں۔