کراچی : سندھ ہائی کورٹ نے غیر قانونی تعمیرات پر ایس بی سی اے حکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نقشے منظور کرتے ہیں، تعمیرات ہوجاتی ہیں اور پھر گرا دیتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں لیاقت آباد، فیڈرل بی ایریا میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف5درخواستوں کی سماعت ہوئی ، ڈی جی ایس بی سی اے محمد یاسین اورڈائریکٹر سینٹرل ایس بی سی اے عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے ایس بی سی اے کے وکیل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آپ کے ادارے کے بارے میں کافی شکایات آرہی ہیں، نقشے منظور کرتے ہیں، تعمیرات ہوجاتی ہیں پھر گرا دیتے ہیں، ایک بار منظوری کے بعد پھر دوبارہ تعمیرات کیوں گرا دیتے ہیں؟
جسٹس ذوالفقار علی سانگی نے ایس بی سی اے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ شکایتیں آرہی ہیں، لوگ اربوں روپے لگاتے ہیں، ایک بار این او سی جاری ہونے کے بعد کیسے کینسل ہوجاتا ہے، جب تعمیرات ہو رہی ہوتی ہیں تب خیال کیوں نہیں آتا؟جب کروڑوں، اربوں کا خرچہ ہوجاتا ہے تب کیوں گراتے ہیں؟
جسٹس عدنان اقبال چوہدری کا کہنا تھا کہ 10سال کے بعد ایس بی سی اے کو پتہ چلتا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات ہوئیں، آپ نے کتنے افسران کے خلاف کارروائی کی؟ جس پر وکیل ایس بی سی اے نے بتایا کہ 2افسران کو معطل کر چکے۔
جسٹس عدنان اقبال چوہدری نے کہا کہ وہ بات کریں جس پر ہم یقین کرسکییں، جب افسران کے خلاف کارروائی کی بات آتی ہے تو آپ کہتے ہیں وہ ریٹائرڈ ہوگئے، تو وکیل ایس بی سی اے کا کہنا تھا کہان کیسز میں تعمیرات غیر قانونی تھیں اور گرانے کا حکم دے دیا گیا،ڈی جی ایس بی سی اے نے خود تعمیرات گرانے کا حکم دیا۔