چیئرمین پی ٹی آئی کا توشہ خانہ کیس کی سماعت کرنیوالے جج پر عدم اعتماد کا اظہار

پاکستان بار کونسل کا ججز کو بلا سود قرض دینے کے نوٹیفکیشن کی واپسی مطالبہ

چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں توشہ خانہ فوجداری کیس کی سماعت کرنے والے ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور پر سربراہ پی ٹی آئی نے عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کیس کی سماعت میں نیا موڑ آیا ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی نے کیس کی سماعت کرنے والے ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔

اس حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے معاون وکیل بیرسٹر گوہر نے موقف دیتے ہوئے کہا ہے کہ آپ (ایڈیشنل سیشن جج دلاور گوہر) کے نام کا فیس بُک اکاؤنٹ ہے جہاں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کئی پوسٹ لگی ہیں۔ اس موقع پر بیرسٹر گوہر نے پوسٹس کی تصویریں بھی عدالت کے سامنے پیش کر دیں۔

جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ فیس بک اکاؤنٹ میرا ہی ہے لیکن یہ پوسٹس میری نہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ پہلے آپ اس کی فرانزک کراتے اس کے بعد یہ اعتراض کرتے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آپ نے تسلیم کر لیا فیس بک آپ کا ہے اب فیس بک بند ہو چکا ہے۔

جج نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے میرے فیس بک اکاؤنٹ پر کیا یہ ساری چیزیں دیکھی ہیں؟ جس پر بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ میں نے یہ ساری چیزیں اُس فیس بک اکاؤنٹ پر دیکھی ہیں لیکن بعد میں وہ لاک ہوگیا۔

جج نے کہا کہ اس کو آپ کسی ایسے فورم پر کیوں نہیں لے کر جاتے کہ اس کی تحقیقات ہوں؟ اس موقع پر ایڈووکیٹ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے بیرسٹر گوہر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وکیل جیسا رویہ اختیار کریں، سیاسی جماعت کے ورکر نہ بنیں۔

امجد پرویز بٹ کے اس ریمارکس پر بیرسٹر گوہر اور جج کے درمیان مکالمہ ہوا اور انہوں نے جج ہمایوں دلاور سے کہا کہ ان کو چُپ کرائیں۔ جج نے کہا میں نے آپ کو کہہ دیا کہ آپ اس کی فرانزک کرا سکتے ہیں۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ انکوائری ہو جاتی کہ یہ پیجز اپ لوڈ ہوئے یا نہیں جس پر جج نے کہا کہ تحقیقات چل رہی ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جب تک انکوائری مکمل نہیں ہوتی تب تک آپ کا یہ کیس سننا مناسب نہیں۔

اس سے قبل جب آج ایڈیشنل سیشن جج بیرسٹر گوہر نے کیس کی سماعت شروع کی تو معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں مصروف ہیں جس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج نے سماعت کچھ دیر کے لیے وقفہ کیا تھا۔