فن کسی کی میراث نہیں بلکہ عطیائے خداوندی ہوتا ہے ثمانہ علی پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جو اپنا فن دھات پر منتقل کرکے انہیں نیا رنگ وروپ دیتی ہیں۔
پاکستان ٹیلنٹ کے حوالے سے ہمیشہ زرخیز سر زمین رہی ہے جہاں مختلف شعبوں میں مرد وخواتین اپنا کمال ہنر دکھا کر دنیا میں ملک کا نام روشن کرتے رہتے ہیں ان میں ہی ایک ہیں سیدہ ثمانہ علی جو اپنے فن کو دھات پر منتقل کرکے خوب صورت نادر فن پاروں کی شکل دیتی ہیں۔ دھات پر فن پارے بنانے والی یہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں جنہیں ملک میں اس فن کی موجد کے طور پر جانا جاتا ہے
ثمانہ علی جنہوں نے فاطمہ یونیورسٹی سے پہلی پوزیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ انہوں نے 20 سال قبل انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا اور آج ان کی یہ کام اتنا مقبول ہوچکا ہے کہ اس کو امریکا اور یورپ میں بھی بھیجا جا رہا ہے جب کہ ان گنت خواتین کو یہ فن سکھا کر برسر روزگار بھی بنا چکی ہیں۔
سیدہ ثمانہ علی نے اے آر وائی نیوز کے مقبول مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کی اور اپنے فن سے متعلق گفتگو کی۔
ثمانہ نے بتایا کہ دیکھنے میں یہ بہت مشکل فن لگتا ہے لیکن اتنا مشکل نہیں ہے کچھ ٹیکنیکس ہیں اس کو بنانے کی ہمارا سارا کام ہاتھ سے ہوتا ہے مشین کا استعمال نہیں ہوتا اس میں دھات کے علاوہ لکڑی کا بھی استعمال کیا جاتا ہے اور چھوٹی اشیا سے لے کر فرنیچر تک پر ہم اپنا فن منتقل کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک ملک بھر کے تمام صوبوں کے دور دراز علاقوں اور دیہات کی ان گنت خواتین میں اپنا یہ فن منتقل کرکے انہیں باعزت روزگار کا ذریعہ فراہم کر چکی ہیں پاکستان میں اس وقت ان کے علاوہ کوئی اور یہ کام نہیں کر رہا لیکن اس فن کی دنیا بھر میں بہت ڈیمانڈ ہیں۔ ہم نے تین سال قبل بزنس نیٹ ورک قائم کیا ہے اور اب ہم اس کو امریکا، یورپ اور خلیجی ممالک میں ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔
ثمانہ نے فن پاروں کی قیمت کے حوالے سے ابہام دور کرتے ہوئے کہا کہ عمومی طور پر دھاتی فن پارے بہت زیادہ مہنگے نہیں ہوتے صرف وہی فن پارے قدرے مہنگے ہوتے ہیں جن کے لیے مٹیریل ہمیں باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔