پُر خطر راستے اور بلند پہاڑوں کے درمیان میں جھولتی’’ڈولی‘‘، لوگ یہ خطرناک سفر کیوں کرتے ہیں؟

گزشتہ روز بٹگرام میں زمین سے ہزاروں فٹ بلندی پر چیئر لفٹ میں 7 طلبہ سمیت 8 افراد گھنٹوں پھنسے رہے جس پر یہ سوال اٹھ گیا کہ لوگ یہ پر خطر سفر کرتے کیوں ہیں؟

گزشتہ روز بٹگرام میں زمین سے 6 ہزار سے زائد فٹ بلندی پر چیئر لفٹ میں پھنسے 7 طلبہ سمیت 8 افراد کو 12 گھنٹے سے زائد کوششوں کے بعد بازیاب کرا لیا گیا جس میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹرز نے حصہ لیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس طرح سے سفر کرنا مقامی لوگوں کا معمول ہے جس کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ آخر لوگ اتنا پُر خطر سفر کر کے اپنی زندگیاں خطرے میں کیوں ڈالتے ہیں۔

جس کا جواب یہ ہے کہ پُر خطر راستوں اور اونچے پہاڑوں کے درمیان اس طرح غیر محفوظ سفر کرکے کوئی خوشی سے اپنی زندگی خطرے میں نہیں ڈالتا لیکن اگر کوئی دوسرا راستہ نہ ہو تو مقامی لوگ کیا کریں کیونکہ رسوں کے سہارے زمین سے ہزاروں فٹ بلندی پر فضا میں ڈولتی چیئر لفٹ ہی مقامی افراد کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کا ذریعہ ہے۔

بٹگرام جیسے ملحقہ علاقوں میں رابطہ پل نہ ہونے کے باعث بلند پہاڑوں کے درمیان آمدورفت کیلیے چیئر لفٹ کا استعمال کیا جاتا ہے، مقامی لوگ کام اوربچے اسکول جانے کیلیے یہی واحد ذریعہ استعمال کرنے پرمجبور ہوتے ہیں اور کل جن بچوں کو یہ حادثہ پیش آیا وہ بھی اسی ذریعے سے اسکول جا رہے تھے۔

ان چیئر لفٹ کی ڈولی دو بڑے رَسوں پر لٹکی ہوتی ہے جب کہ تیسری رسی ڈولی کو مخالف سمت کھینچنے کیلیے ہوتی ہے۔ رسی کے ٹوٹنے یا کسی بھی خرابی کی صورت میں کوئی متبادل انتظام نہ ہونے کی وجہ سے پاک فوج یا حکومتی امداد کا انتظار کیا جاتا ہے۔

بٹگرام چیئرلفٹ آپریشن، ڈولی کی تار ٹوٹنے سے ریسکیو کی تکمیل تک کیا کیا ہوا؟

ان چیئر لفٹس کی دیکھ بھال اورمرمت کیلیے کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا جس کے باعث شہریوں کی زندگیاں ہر وقت خطرے میں رہتی ہیں۔