الطاف علی بریلوی: علم و ادب کے ایک شیدائی کا تذکرہ

کراچی میں ’’سرسیّد گرلز کالج‘‘ کے قیام اور فروغِ تعلیم کے لیے مخلصانہ کوششیں کرنے والے سیّد الطاف علی بریلوی کی آج برسی ہے انھیں پاکستانی قوم کے ایک خیرخواہ اور ایک مدبّر و مصلح‌ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

سیّد الطاف علی بریلوی ایک علمی و ادبی شخصیت بھی تھے اور انھوں نے ’’حیاتِ حافظ رحمت خان ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی یادگار چھوڑی ہے۔ یہ کتاب 1934ء میں شایع ہوئی تھی۔ روہیل کھنڈ کی تاریخ پر مبنی اس کتاب میں روہیلوں اور خاص طور پر حافظ رحمت خاں کے شب و روز کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب کی اشاعت کے بعد لوگ الطاف علی بریلوی کے نام سے واقف ہوئے۔ مذکورہ کتاب میں‌ ’’داستانِ حیات‘‘ کے عنوان سے مقدمے میں انھوں نے اپنی بیروزگاری اور ان دنوں کے حالات کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ سخت معاشی مشکلات کا دور تھا جس میں انھوں نے اپنی علمی لگن اور تعلیم کے فروغ کی کوششوں‌ کو بہرحال جاری رکھا اور 1935ء میں اپنے چند ساتھیوں کے تعاون سے ’’اسلامیہ گرلز اسکول بریلی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ساتھ ہی ’’آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ‘‘ کے دفتر کا انتظام سنبھال کر دن رات کام میں مشغول رہے۔ 1941ء میں انھوں نے ’’انجمن مصنّفین‘‘ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مشرقی علوم و فنون کو فروغ دینا اور دوسری زبانوں کے ادبی و علمی مضامین کو تراجم کی شکل میں سامنے لانا تھا۔اسی کے ساتھ وہ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ میں شامل ہوگئے۔ 1942ء میں سہ ماہی ’’مصنّف‘‘ بھی جاری کیا۔ تقسیم ہند کے بعد 1950ء میں کراچی آنے والی الطاف علی بریلوی نے یہاں بھی علمی و ادبی مشاغل اور سرگرمیوں کو جاری رکھا اور تعلیم کے فروغ کے ساتھ تصنیف کا سلسلہ بھی برقرار رہا جس کے نتیجے میں 1964ء میں اُن کے تحریر کردہ خاکوں پر مبنی کتاب ’’راہی اور راہ نما‘‘ سامنے آئی۔ اس کے علاوہ تعلیم سے متعلق چند کتابیں تحریر کیں اور 1969ء میں خاکوں کی دوسری کتاب ’’چند محسن چند دوست‘‘ شایع ہوئی جب کہ ان کی آخری کتاب ’’تخلیقات و نگارشات‘‘ 1985 میں سامنے آئی۔

24 ستمبر 1986ء کو کراچی میں وفات پانے والے سیّد الطاف علی بریلوی قیامِ ایک ماہرِ‌ تعلیم اور ادیب ہی نہیں تحریکِ پاکستان کے ایک نہایت مخلص کارکن اور عالی دماغ مشہور تھے۔

سید الطاف علی بریلوی 10 جولائی 1905 کو بریلی میں پیدا ہوئے۔ وہ روہیل کھنڈ، یوپی (بھارت) کے محلّے عقب کوتوالی، شاہ آباد میں ایک متوسط گھرانے کے فرد تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ الطاف علی بریلوی کے آبا و اجداد مدتوں پہلے وسط ایشیا سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے۔ ان کے دادا کا نام سیّد اصغر علی تھا جو تجارت پیشہ تھے۔ دادی بھی تعلیم یافتہ اور ایک اسکول میں ہیڈ مسٹریس تھیں۔ الطاف علی بریلوی کے والد کا نام سیّد اسحاق علی تھا۔ الطاف علی بریلوی نے 1935 میں سر سید احمد خان کی قائم کردہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے بطور آفس سیکریٹری اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور تاعمر تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔

سیّد الطاف علی بریلوی کی دیگر کتب میں مسلمان کی دنیا، علی گڑھ تحریک اور قومی نظمیں، تعلیمی مسائل- پس منظر و پیش منظر بھی شامل ہیں۔