این جی مَجُمدار پر ڈاکوؤں نے اُس وقت حملہ کیا جب وہ سندھ کے ایک علاقے میں تہذیب و تمدن کا پوشیدہ خزانہ تلاش کررہے تھے۔ وہاں سے برآمد ہونے والی اشیاء سونے چاندی یا نقدی کی طرح اُن لٹیروں کے کام نہیں آسکتی تھیں، لیکن ان کا خیال تھاکہ کھدائی کے دوران جواہر اور زیورات وغیرہ برآمد ہوئے ہوں گے جنھیں ہتھیانے کے لیے ڈاکوؤں نے مجُمدار اور ان کے ساتھیوں پر حملہ کردیا۔
یہ ایک طویل پہاڑی سلسلہ تھا جس میں مجمدار زخمی ہوئے اور اسی مقام پر دَم توڑ دیا۔ ان کی لاش کو شہر تک لانے کے لیے اس وقت کی ضلع انتظامیہ کو بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی لاش بمشکل کاچھو کے میدانی علاقے میں گاج ندی کے کنارے گاج بنگلو تک لائی گئی۔ یہ 11 نومبر 1938ء کا افسوس ناک واقعہ ہے۔
مَجُمدار ماہرِ آثارِ قدیمہ تھے اور وادیٔ مہران کے ایک مقام پر قدیم تہذیب کے آثار کی کھدائی کا کام انجام دے رہے تھے۔ یہ ہزاروں سال سے پہلے زمین میں دفن ہوجانے والی تہذیب تھی جس کے لیے مجمدار ضلع دادو کے قریب جوہی کے پہاڑی سلسلے میں خیمہ زن ہوئے تھے۔
وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب کی کھوج میں 1926ء سے 1930ء تک مجمدار نے اپنی ٹیم کے ساتھ کئی قدیم مقامات دریافت کیے جن میں کاہو جو دڑو، چانہیوں جو دڑو، کوٹ ڈیجی، روہڑی، لوہم جو دڑو، واہی پاندھی کے ٹیلے، غازی شاہ دڑو، گورانڈی کے ٹیلے، جھکر کے ٹیلے، علی مراد دڑو، ٹنڈو رحیم ٹیلہ، منچھر جھیل کے کناری پیر لاکھیو دڑو، پیر مشاخ، لہڑی، ٹہنی کے ٹیلے، نئیگ وادی میں لکھمیر کا ٹیلہ، آمری تہذیب کے ٹیلے وغیرہ شامل ہیں۔ سندھ میں ضلع ٹھٹہ میں واقع تھارو پہاڑی کے آثار اور سیہون کے قریب جھانگارا کے قدیم آثار بھی انہی کے دریافت کردہ تھے۔
مَجُمدار نے ماہرِ آثارِ قدیمہ کی حیثیت سے قابلِ ذکر کام کیا اور ایک تصنیف بھی یادگار چھوڑی۔ وہ 1897ء کو جیسور، بنگال میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام نینی گوپال مجمدار تھا جنھیں این جی مَجُمدار پکارا جاتا ہے۔ 1920ء میں یونیورسٹی آف کلکتہ سے ایم اے کرنے والے مجمدار نے فرسٹ کلاس پوزیشن حاصل کی تھی اور گولڈ میڈل اپنے نام کیا تھا۔
این جی مَجُمدار نے سندھ میں قبلِ مسیح اور لوہے و تانبے کے دور کے 62 آثارِ قدیمہ دریافت کیے جس کی تفصیل ان کی تصنیف ‘ایکسپلوریشنس اِن سندھ’ میں ملتا ہے۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ محکمۂ آثارِ قدیمہ میں ملازم ہوئے اور 1929ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سینٹرل سرکل میں تقرری کے بعد اسی برس کلکتہ میں اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مقرر ہوئے۔ اپنی علمی استعداد اور قابلیت کے ساتھ انھوں نے قدیم آثار کی کھوج اور دریافت کے لیے محنت اور لگن سے کام کرتے ہوئے محکمے میں اپنی جگہ بنائی۔ ان کے کام اور دل چسپی کو دیکھتے ہوئے 1938ء میں انھیں سندھ میں قبل از تاریخ دورانیے کے سروے کا کام سونپا گیا۔ اس سے قبل مجُمدار موہن جودڑو میں کھدائی اور تحقیق کے کام میں سَر جان مارشل کے معاون کے طور پر بھی کام کرچکے تھے۔
این جی مجُمدار کو ہیروں یا سونے وغیرہ سے بنے ہوئے ہتھیاروں کے بارے میں ان کے تحقیقی مقالے پر ‘گریفتھ’ یادگاری انعام بھی دیا گیا تھا۔
اس زمانے میں عام لوگوں سمجھتے تھے کہ ایسے مقامات پر خزانہ مدفون ہوتا ہے جسے یہ ماہرین کھدائی کے دوران نکال لیتے ہیں۔ جوہی میں ان کے کیمپ پر ڈاکوؤں کے حملہ کرنے کی وجہ یہی تصور تھا، اس کے علاوہ عام لوگ جذباتی وابستگی کی وجہ سے یہ سوچتے تھے کہ زمین میں ان کے آبا و اجداد دفن ہیں اور ماہرینِ آثار ان کی باقیات کی بے حرمتی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ زمین میں دفن ہوجانے والی قیمتی اشیا بھی نکال کر لے جاتے ہیں۔ ان حالات میں یہ کام کرنے والے خطرے کی زد میں رہتے تھے، ڈاکوؤں کو اور تو کچھ نہ ملا لیکن مجمدار جیسے قابل آرکیالوجسٹ جان سے گئے۔
این جی مجُمدار کی کتاب ‘ایکسپلوریشنس ان سندھ’ انگریزی زبان میں تحریر کی گئی تھی جس میں کاہو جو دڑو، لوہم جو دڑو، چانہو جو دڑو، آمری، واہی پاندھی اور سندھ کے قدیم ٹیلوں اور ان مقامات سے برآمد ہونے والی اشیاء سے متعلق تحقیق اور اس کی تفصیل شامل ہے۔