جہلم: سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ آنے کے بعد حکومت کیلیے اگلے 45 دن اہم قرار دے دیے۔
فواد چوہدری نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا کہ حکومتی وزرا پریشان ہیں کہ پی ٹی آئی پارٹی نہیں تو اسے سیٹیں کیسے دی گئیں، اٹارنی جنرل وزیر قانون کو نہ تو درست بریف کر سکے نہ عدالتی کارروائی سنی، پچھلی 4 سماعتوں کے دوران مدعا ہی یہی رہا کہ سیٹیں کس کو ملنی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنی چاہیے یہ 5-8 کا نہیں بلکہ 2-11 کا فیصلہ ہے، فیصلے میں 11 ججز نے الیکشن کمیشن کو چارج شیٹ کیا ہے، الیکشن کمیشن نے سارا الیکشن پراسس ہی مشکوک کر دیا ہے، عدالتی فیصلے کے بعد مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہوں۔
ویڈیو بیان میں فواد چوہدری نے کہا کہ اب سب کی نظریں چیف جسٹس لاہور ہائی کورت عالیہ نیلم پر ہیں، دیکھنا ہوگا کہ الیکشن ٹریبونل کے 4 ججز تبدیل ہوتے ہیں یا نہیں، الیکشن ٹربیونلز کے 4 ججز کو نہ ہٹایا گیا تو اگلی سماعتیں معمول کے مطابق ہوں گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ معمول کے مطابق کارروائی آگے بڑھنے سے حکومت 45 دنوں میں اکثریت کھو دے گی، قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے نمبرز بڑھ کر 115 ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کیلیے پی ٹی آئی کو 30 سے 35 سیٹیں درکار ہیں، قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی 30 سے 35 نشستیں موجود ہیں، اگلے 45 دن حکومت کیلیے اہم ہیں۔
مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا حکم دیتے ہوئے مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو دینے کا فیصلہ غیر قانونی قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے مخصوص سیٹوں کا فیصلہ آٹھ پانچ سے سنایا تھا جس کا اطلاق قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں پر ہوگا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف تھا، پی ٹی آئی سیاسی جماعت تھی اور رہے گی، انتخابی نشان کسی سیاسی جماعت کو الیکشن لڑنے سے نہیں روکتا۔
الیکشن کمیشن نے اسی ارکان اسمبلی کی فہرست پیش کی تھی جس میں سے انتالیس ارکان کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا، پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کیلئے درخواستیں الیکشن کمیشن کو پندرہ دن میں جمع کرائے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ سے اتفاق کیا تھا۔ چیف جسٹس نے جسٹس جمال کا اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا تھا کہ آئین میں نئے الفاظ شامل کرنا ترمیم کے مترادف ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ آئین میں مصنوعی الفاظ کا اضافہ نہیں کر سکتی، آئینی تشریح کے ذریعے نئے الفاظ کا اضافہ کرنا آئین دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس فیصلے کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن کو کسی جماعت کے ارکان کو آزاد قرار دینے کا اختیار نہیں۔