شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ڈالر اگر 150 روپے کا ہوتا تو آج بجلی کا بل آدھا آرہا ہوتا، کل کو ڈالر مہنگا ہوگا تو بجلی کے بل اور زیادہ مہنگے ہونگے۔
سابق وزیراعظم نے اے آر وائی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے حکومت پاکستان نے بنائے ایک لفظ تبدیل نہیں ہوسکتا، جتنے حضرات آئی پی پیز پر بات کررہے ہیں انھیں الف ب نہیں پتہ، لوگوں کو بتایا جارہا ہے کہ صرف آئی پی پیز ہی مسئلہ ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ 18 روپے فی یونٹ کپیسٹی چارجز پڑ رھے ہیں پوری دنیا میں ایسے ہوتا ہے، 18 روپے میں سے 12 روپے حکومت کے اپنے ہیں، نیوکلیئر، ہائیڈل، 4 ایل این جی اور سولر اور ونڈ پلانٹ ملاکر 12 روپے حکومت کے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 6 روپے میں سے 3 روپے تھرکول اور ساڑھے 3 روپے سی پیک کے تین کول پلانٹ کے ہیں، باقی 3 سے 4 روپے مشرف اور بینظیر دور میں لگے پلانٹس کی ادائیگیاں ہیں۔
سیاسی استحکام کیلئے معاشی استحکام ضروری مگر الیکشن چوری کا مسئلہ ہے، بجلی کے بل معاشی استحکام سے جڑے ہیں اور معاشی استحکام سیاسی استحکام سے، جتنے بھی نئے پلانٹ لگے ہیں ان کی بتدریج قیمتیں کم ہونے میں 5 سال لگیں گے، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پلانٹ ڈالرز میں لگے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ معیشت کمزور ہوگی تو بل زیادہ آئیگا، جب تک سیاسی استحکام نہیں آئیگا معیشت مضبوط نہیں ہوگی، حکومت عوام کو پہلے اعتماد میں لے کیونکہ سب کا اپنا اپنا ویسٹرن انٹرسٹ ہے۔
انھوں نے کہا کہ جب پلانٹ لگتے ہیں تو 7سے 8 سال ٹیرف بہت ہائی ہوتا ہے، پی ٹی آئی حکومت آئی پی پیزمعاہدوں سے متعلق پالیسی واپس لے آئی۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مسئلہ روپے کی قدر کم ہونے سے شروع ہوا، معیشت نیچے آنے سے بجلی کی پیداوار کی قیمت بڑھی، کوئی بھی معاہدہ نظرثانی شدہ نہیں ہے۔