پشاور کی رہائشی 14 سال کی فائقہ کے چہرے سے بون میرو بیماری نے مسکراہٹ چھین لی۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق پشاور کی فائقہ کا بچپن مسکراہٹیں سب چھن گئی، بون میرو جیسی خطرناک بیماری نے 14 سالہ لڑکی کو معذو کردیا۔
غریب والدین علاج کروانے کی سکت کھوبیٹھے ہیں، بیٹی کو پل پل تکلیف میں دیکھنا والدین کے لیے بھی اذیت ناک ہے۔
فائقہ کہتی ہیں کہ ’میں سو نہیں سکتی، اسکول نہیں جاسکتی، مجھے تکلیف ہے علاج کی ضرورت ہے، وہ بیہوش ہوجاتی ہیں تھوڑا سا چلتی ہیں تو گر جاتی ہیں۔‘
فائقہ کے والد سعید کہتے ہیں کہ ’بیٹی کا علاج کروانا میری سکت سے باہر ہے، 50 لاکھ روپے بہت زیادہ ہیں، میری دیہاڑی 8 سے 9 سو روپے ہے، میرے گھر کا کرایہ بہت زیادہ ہے۔
حکومت نے کم عمر بچی کے علاج کے لیے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں جس کے سبب غمزدہ والدین کے دکھ میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا ہے اور کیوں کیا جاتا ہے؟
بون میرو ٹرانسپلانٹ ایک طبی طریقہ علاج ہے جو مریض کے غیر صحت مند بون میرو کو صحت مند ڈونر کے جسم سے لئے گئے خلیوں سے بدل دیتا ہے۔ اسے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ جسم میں خون کے سرخ خلیات، سفید خون کے خلیات اور پلیٹلیٹس بنانے کی صلاحیت کو بحال کرتا ہے۔
یہ لیو کیمیا، اے پلاسٹک انیمیا، تھیلے سیمیا، سکل سیل انیمیا، مائیلوما، لیمفوما، خون اور مدافعتی نظام کی دیگر بیماریاں جو بون میرو کو متاثر کرتی ہیں کے علاج کے لیے کیا جاتا ہے۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ کو 1968ء سے لیوکیمیا، اے پلاسٹک انیمیا، سکل سیل انیمیا، مائیلوما، لیمفوما، مدافعتی نظام کی خرابی اور کچھ ٹھوس ٹیومر کینسر جیسی بیماریوں کے علاج کے لیے کامیابی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ، بون میرو کی جگہ لے لیتا ہے جو بیماری سے خراب ہوچکا ہو، جیسے لیوکیمیا یا لیمفوما۔ صحت مند خون کے خلیے، کسی عطیہ دہندہ سے ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں تاکہ وہ نئے خون کے خلیے تیار کریں اور نئے صحت مند میرو کی افزائش کریں۔