دنیا میں کئی باصلاحیت فن کار، آرٹسٹ، باکمال ہنر مند اور صناع ایسے ہیں جن کے فن پارے اور تخلیقات کو ابتداً مسترد کردیا گیا اور وہ غربت اور بے نامی میں چل بسے، لیکن ان کے گزر جانے کے بعد نہ صرف انھیں قابل و باصلاحیت تسلیم کیا گیا بلکہ ان کے فن کا خوب چرچا ہوا۔
اردو کے معروف ادیب اور نقاد محمد سلیم الرحمٰن نے اپنی ایک مختصر تحریر میں ایسے ہی چند مشہور فن کاروں کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
فان گوخ، جس کی تصویریں اب کروڑوں میں بکتی ہیں، مفلسی میں فوت ہوا۔ موتزارٹ کے پائے کا موسیقار مغرب میں کوئی کوئی ہو گا۔ وہ بھی مفلوک الحال مرا۔
یہاں ایک لطیفہ یاد آیا۔ ڈورس لیسنگ نے ادب کا نوبیل انعام ملنے کے بعد اپنا نیا ناول کسی فرضی مصنّف کے نام سے اپنے ناشر کو بھجوا دیا۔ ناشر نے یا اس کے مدیروں نے بلا تامل اسے مسترد کر دیا۔
ایملی ڈکنسن کا اب سربرآوردہ امریکی شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ زندگی میں اس کی کوئی قدر نہ ہوئی۔ شاید چھ یا سات نظمیں شائع ہوئیں۔ مدیر اس کی نظموں کو سمجھ ہی نہ سکے۔ سوچا کہ یہ تو مفہوم ٹھیک سے ادا کرنے پر بھی قادر نہیں۔ اوقات نگاری بھی بے ڈھنگی ہے۔ انہوں نے نظموں کو اپنی دانست میں ٹھیک کر کے مگر پوری طرح بگاڑ کر چھاپا۔ نظموں کی درگت بنتے دیکھ کر وہ چھپنے چھپانے سے تائب ہو گئی۔ ایک قصبے میں عزلت گزیں ہو کر پوری زندگی گزار دی۔
وفات کے بعد اس کے جاننے والوں نے اس کی نظمیں، جن کی تعداد تقریباً اٹھارہ سو تھی، چھپوا دیں۔ ان کی بھی سمجھ میں نہ آیا کہ نظموں میں جو اندازِ بیان اختیار کیا گیا ہے اس کی معنویت کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بھی، اپنی سمجھ کے مطابق، نظموں کو ٹھیک ٹھاک کر کے چھاپا۔ دوسرے لفظوں میں نظموں کی انفرادیت کو ملیا میٹ کر دیا۔ ایملی ڈکنسن کے صحیح ادبی مقام کا تعین کہیں بیسویں صدی میں جا کر ہوا۔ اپنے وقت سے پہلے پیدا ہونے کی سزا مل کر رہتی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ باصلاحیت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عین ممکن ہے کہ آپ کو قدر دان ہی نصیب نہ ہوں۔ بعض ادیب اور شاعر اپنی زندگی میں مشہور ہو جاتے ہیں۔ بعد میں ان کا کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ بعضوں کو جیتے جی کوئی داد نہیں ملتی۔ بعد میں ان کا بڑا چرچا ہوتا ہے۔
یوں کہیے کہ فن ایک دریا ہے۔ بعض لوگ کسی نہ کسی طرح تیر کر دوسرے کنارے پر جا پہنچتے ہیں۔ وہاں ان کو خوش آمدید کہا جاتا ہے یا نظر انداز کر دیا جاتا ہے، کون جانے۔ اور جو ڈوب جاتے ہیں وہ بھی کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جاتے ہوں گے۔