اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں رہنما پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ثنا اللہ مستی خیل کے گھر سے بجلی کا میٹر اتارنے کا معاملہ زیرِ بحث آگیا۔
چیئرمین پی اے سی جنید اکبر کی زیرِ صدارت اجلاس میں رکن کمیٹی عمر ایوب نے کہا کہ ہمارے ایک معزز رکن ثنا اللہ مستی خیل کے گھر پر سوال کرنے پر حملہ کیا گیا، اس معاملے پر پی اے سی نے کیا فیصلہ کیا؟
جنید اکبر نے بتایا کہ ثنا اللہ مستی خیل نے میٹر اتارنے والوں کو معاف کر دیا، کمیٹی میں سیکریٹری پاور ڈویژن اور چیف ایگزیکٹو فیسکو کو طلب کیا تھا، معزز رکن کے معاف کر دینے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ذیلی کمیٹی بنائی جائے۔
عمر ایوب نے کہا کہ ایک ممبر کے استحقاق کا معاملہ نہیں رہا پوری کمیٹی کا استحقاق مجروع کیا گیا، کیا اب اراکین کے سوالات پوچھنے پر گھروں پر چھاپے مارے جائیں گے؟
جنید اکبر نے بتایا کہ ہم یہ کمیٹی بطور احتجاج چلا رہے ہیں کیونکہ اسپیکر موجود نہیں ہیں، اجلاس میں تمام پارٹیوں کی طرف سے چھاپے کی مذمت کی گئی تھی، کمیٹی نے بھی فیصلہ کیا کہ ثنا اللہ مستی خیل کی معافی کے باوجود معاملے پر فیصلہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایک ذیلی کمیٹی بنائی جا رہی ہے جس میں تمام پارٹیوں کی نمائندگی ہوگی، کمیٹی سفارشات تیار کرے گی جن پر اسپیکر سے بات کی جائے گی۔
اس پر شبلی فراز نے کہا کہ یہ تو پھر کچھ بھی نہیں ہوگا، ایسے تو کوئی یہاں بات نہیں کر سکے گا۔ جنید اکبر نے کہا کہ اسپیکر کے آنے پر یہ معاملہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
قبل ازیں کمیٹی کے اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا کہ ای او بی آئی نے 2 ہزار 864 اداروں سے 2 ارب 47 کروڑ روپے کی ریکوری نہیں کی، ادارے مکمل ملازمین کی تعداد کو رجسٹر نہیں کرواتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک ارب 53 کروڑ روپے کی ریکوری کر لی ہے اب بھی ایک ارب روپے کی وصولی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، کچھ ریکوری کیس عدالت میں ہونے کے باعث وصول نہیں کی جا سکتی۔
چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ اس ریکوری کو ایک ماہ میں مکمل کریں۔ رکن کمیٹی ریاض فتیانہ نے کہا کہ بڑے صنعتی ادارے مکمل ملازمین کو رجسٹر نہیں کرواتے۔ جنید اکبر نے سوال کیا کہ اس خلاف ورزی کو کون چیک کرتا ہے؟
رکن کمیٹی معین عامر پیرزادہ کا کہنا تھا کہ کنٹریکٹ ملازمین کو ای او بی آئی میں رجسٹر نہیں کیا جاتا جبکہ رکن بلال احمد خان نے مطالبہ کیا کہ ای او بی آئی میں رجسٹریشن میں صنعتی شعبے کو ٹیکس مراعات دی جائیں۔
حکام نے بتایا کہ ای او بی آئی مختلف ڈیٹا بیس سے عملے کی تعداد کا تعین کرتا ہے۔
سیکریٹری اوورسیز کے مطابق 7کروڑ ملازمین ہیں ہمارے پاس ایک کروڑ ملازمین کا ڈیٹا ہے، ای او بی آئی میں رجسٹریشن بہتر بنانے کیلیے کام کر رہے ہیں۔
حکام کا کہنا تھا کہ زراعت کے شعبے کی 38 فیصد لیبر فورس کو رجسٹر نہیں کیا جا سکتا ، ایکسپورٹ پروسسنگ زونز میں فیکٹریوں کے عملے کوبھی رجسٹر نہیں کیا جاتا، گزشتہ سال 66 ارب روپے اس سال 72 ارب روپے کی ریکوری کی گئی۔