آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ جنھیں شرلاک ہومز نے جاودانی عطا کی

شرلاک ہومز کہانیاں

شرلاک ہومز کی کہانیاں کل کی طرح آج بھی مقبول ہیں۔ شرلاک ہومز نے 1887ء میں فکشن کی دنیا میں جنم لیا تھا۔ کئی دہائیوں تک جاسوسی ناولوں تک محدود رہنے والے شرلاک ہومز کو بعد میں فلمی پردے پر متحرک بھی دیکھا گیا۔ ذہین اور سراغ رساں شرلاک ہومز کے خالق برطانوی مصنّف آرتھر کونن ڈوئل (arthur conan doyle) تھے جو 1930ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے طفیل جاسوسی ادب کے قارئین کو ایک ذہین اور نہایت دل چسپ کردار ملا جو سراغ رساں اور جاسوسی میں ماہر تھا۔ کونن ڈوئل کے اس خیالی کردار نے ناولوں اور پچاس سے زائد افسانوں میں پیچیدہ، مشکل اور نہایت پُراسرار یا معمّا بن جانے والے کیسز کو اپنی ذہانت سے حل کیا اور دنیا بھر میں‌ مقبول ہوا۔ کہانی پڑھنے والے اسکیچز میں شرلاک ہومز کو محدب عدسہ تھامے، پائپ کا کش لگاتے اور سوچ میں ڈوبا ہوا دیکھتے اور بیتابی سے صفحات الٹتے تاکہ مجرم اور اس کے جرم کی وجہ جان سکیں۔

شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔ جب ڈویل کی کہانیاں بشمول اردو دنیا بھر میں‌ ترجمہ کی گئیں تو شرلاک ہومز کی شہرت اور مقبولیت بھی عروج پر پہنچ گئی۔ ہندوستان بھر میں اردو، ہندی زبانوں میں‌ ڈوئل کی کہانیوں کے تراجم شوق سے پڑھے گئے اور وہ سب کا پسندیدہ بن گیا۔ مصنّف آرتھر ڈوئل کی یہ کہانیاں کتابی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں ان کے تراجم بھی خوب بِکے۔

برطانوی حکومت نے آرتھر کونن ڈوئل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کو سَر کا خطاب دیا تھا۔ وہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے تھے۔ انھوں نے 1859 میں آنکھ کھولی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معالج کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت کے حامل ڈوئل پُراسرار واقعات اور جرم و سزا کی دنیا میں‌ دل چسپی لینے لگے اور بعد کے برسوں میں‌ ان کو اس سے متعلق جدید افسانوں کا بانی مانا گیا۔ ڈوئل نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔ وہ شاعر بھی تھے۔

1885ء میں ڈوئل نے طبّ کے مضمون میں سند حاصل کرنے کے بعد پریکٹس شروع کی تھی۔ اسی زمانے میں وہ مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے لگے اور پھر شارٹ اسٹوریز کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کو شائع کروایا تو برطانیہ بھر میں ان کو بہت سراہا گیا اور پھر انھوں نے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا جس کے بعد ان کی شہرت سرحد پار دور دور تک پھیل گئی۔ ان کے اس خیالی کردار نے ہر چھوٹے بڑے کو جاسوسی ادب کا دیوانہ بنا دیا۔

سر آرتھر ڈوئل ایسے برطانوی مصنّف ہیں جنھیں ترکی کے سلطان کی جانب سے "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا تھا۔ انھیں یہ اعزاز شرلاک ہومز جیسا کردار تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا جو سبھی میں یکساں‌ مقبول تھا۔

سراغ رساں شرلاک ہومز کے دیوانے اور ڈوئل کے مداح آج بھی برطانیہ میں ہر سال ان کی یاد میں تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں‌ جہاں اس مصنّف کے فن اور تخلیقات پر اظہار خیال کیا جاتا ہے اور اسے نئے انداز سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ برطانیہ کے مختلف شہروں‌ میں آرتھر ڈوئل کے یادگاری مجسمے بھی نصب ہیں۔

جارج ایڈورڈ چیلنجر جسے صرف پروفیسر چیلنجر پکارا جاتا تھا، اسی برطانوی مصنّف کا ایک افسانوی کردار تھا جس کی عادات اور مزاج شرلاک ہومز سے یکسر مختلف تھیں۔ آرتھر ڈوئل کا یہ شہرۂ آفاق کردار بردبار اور متحمل مزاج ہے جو اس کی شخصیت میں رنگ بھرتا ہے جب کہ پروفیسر چیلنجر کو مصنّف نے غصیلا اور اکھڑ مزاج دکھایا ہے جو اکثر دوسروں‌ پر حاوی ہونا پسند کرتا ہے۔

کہتے ہیں کہ مصنّف نے یہ دونوں کردار حقیقی زندگی سے لیے تھے۔ یہ لوگ آرتھر ڈوئل کے حلقۂ احباب میں‌ شامل تھے۔