ایک زمانہ تھا جب اردو میں ادبی جرائد بڑی تعداد میں اشاعت کے ساتھ بہت اہمیت رکھتے تھے اور محمد طفیل اس دنیا کی ایک بلند قامت شخصیت تھے۔ ’’نقوش‘‘ محمد طفیل کی بحیثیت مدیر اوّلین شناخت بنا جو ایک مقبول ترین ادبی جریدہ تھا۔ بعد میں محمد طفیل ایک قلم کار اور خاکہ نگار کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے۔ ان کے تحریر کردہ اداریے بھی بہت پسند کیے جاتے تھے۔ نقوش کے خاص نمبرز ادبی صحافت میں محمد طفیل کا امتیاز اور ان کی محنت و لگن کی مثال ہیں۔
5 جولائی 1986ء کو محمد طفیل یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے ادبی پرچے کی اشاعت کو کسی ایک موضوع پر خصوصی نمبر کا نام دے کر اس طرح انفرادیت بخشی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ 1951ء میں مدیر کی حیثیت سے نقوش کا اجراء کرنے والے محمد طفیل 1981ء تک ہر برس دو برس بعد خصوصی شمارہ سامنے لاتے رہے جو اردو ادب کی تاریخ کا حصّہ بن گئے۔ ادبی جریدہ نقوش کا اجراء محمد طفیل نے مارچ 1948ء میں کیا تھا، لیکن ادارت کی ذمہ داری بعد میں سنبھالی۔ وہ ایک کام یاب ادبی پرچے کے مالک اور مدیر ہی نہیں تھے بلکہ اردو زبان و ادب کو اپنی تحریروں سے بھی سجایا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے محمد طفیل کو ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔
ممتاز فکشن نگار انتظار حسین لکھتے ہیں: "مدیر کی حثییت سے طفیل مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔”
پروفیسر مرزا محمد منور نے محمد طفیل کے بارے میں لکھا: "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فردِ واحد کے زیرِ انتظام کسی ادارے نے کی ہو۔”
بحیثیت مدیر اداریہ نویسی سے محمد طفیل نے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور اس عرصہ میں جہاں مشاہیر اور قارئین کے خطوط کے جوابات دیے وہیں ادبی تذکرے، یادیں اور مختلف موضوعات پر مضامین بھی لکھنے لگے۔ محمد طفیل کی علمی و ادبی شخصیات سے خط کتابت کا سلسلہ ایک عام بات تھی، لیکن اس میں مدیر کے نام آنے والے مشاہیر کے خطوط جو ایک طرف اپنے طرزِ نگارش کا شاہ کار تھے اور دوسری جانب ان کی بڑی علمی و ادبی اہمیت اور افادیت تھی، انھیں بھی یکجا کر کے کتابی شکل دے دی جس سے آج بھی ہمیں اپنے دور کے مشاہیر اور معروف اہلِ قلم کے خیالات اور حالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔
محمد طفیل نے 14 اگست 1923ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے انھوں نے مشہور خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی سیکھی اور اس سے اندازہ ہوتا ہے انھیں شروع ہی سے علم و فنون سے شغف رہا تھا۔ 1944ء میں محمد طفیل نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ یہ جریدہ لاہور سے شایع ہوتا تھا جس کے اوّلین مدیر احمد ندیم قاسمی تھے۔ نقوش ہر لحاظ سے معیاری اور معاصر جرائد میں ایک اہم جریدہ تھا۔ اس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام وَر شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوتی تھیں اور نقوش کے قارئین ملک بھر میں موجود تھے۔
مدیر کی حیثیت سے محمد طفیل نے نقوش کے کئی خاص نمبر شایع کیے۔ انھوں نے اس جریدہ کے غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع کیے۔ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغۂ روزگار شخصیات اور ان کے فن کا احاطہ کرتے شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی شمارے یادگار ثابت ہوئے۔ یہ سلسلہ پاک و ہند میں پسند کیا گیا جس کی نظیر اس سے پہلے نہیں ملتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ محمد طفیل نے جب غالب نمبر کے لیے مرزا غالب ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ اپنے جریدے نقوش کی زینت بنایا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور بھارت میں بھی یہ کہا گیا کہ اگر یہ مسودہ بھارت میں دریافت ہوا ہے تو پاکستان کیسے پہنچا اور کس طرح پاکستان کے ایک مدیر نے اسے شائع بھی کر دیا۔
محمد طفیل کے شخصی خاکوں کے متعدد مجموعے بعنوان صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی شائع ہوئے۔ ان کی ایک خود نوشت بھی بعد از مرگ بعنوان ناچیز شایع کی گئی تھی۔ محمد طفیل لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔