معرکۂ مئی: بھارت کا اعترافِ شکست اور مفروضے

pakistan air force بنیان مرصوص سندور پاک بھارت جنگ فیلڈ مارشل

پاکستان سے شکست کے بعد بھارت میں آپریشن سیندور اور اس کے نتائج پر بحث اب بھی جاری ہے اور سوالات ہیں کہ بھارتی حکمرانوں اور مسلح افواج کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے۔

اب بھارتی حکمرانوں نے بیانات دینے کے بجائے مسلح افواج کے نمائندوں کو آگے کر دیا ہے کہ وہ اپنی قوم کے سامنے پاکستان سے جنگ میں شکست کی وجوہ بیان کریں۔ بھارتی حکمرانوں کی جانب سے یہ حکمت عملی اس لیے اپنائی گئی ہے کہ بھارت میں فوج پر تنقید عموماً نہیں کی جاتی۔ حزبِ اختلاف کے سیاست داں بھی فوج پر تنقید سے گریز کرتے ہیں۔ بھارت جو ابتدا میں کسی بھی قسم کے نقصان سے انکار کررہا تھا۔ اب آہستہ آہستہ اپنی شکست اور ناکامی کا اعتراف کرنے لگا ہے۔ پہلے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو میں ان کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف انیل چوہان نے بھارتی فضائیہ کے طیاروں کے تباہ ہونے کی تصدیق کی۔ پھر طیارے گرنے کی وجہ پر بیان ملائیشیا سے آیا اور اب شکست کی تفصیل خود بھارتی ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف نے ایک سیمینار کے دوران بیان کی ہے۔

ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف راہول آر سنگھ نے فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (فکی) میں سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے آپریشن سیندور میں بھارتی فضائیہ، فضائی دفاعی نظام کی کمزوریوں، دفاعی نظام میں آلات کی کمی اور بھارت کی ناکام انٹیلیجنس کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جنگی برتری کا بھی اعتراف کیا ہے۔ فکی کہنے کو تو بھارت میں تاجروں اور صنعت کاروں کا سب سے بڑا نمائندہ ادارہ ہے۔ مگر پاکستان دشمنی میں بہت آگے ہے۔ اس کی جانب سے متعدد مرتبہ ایسی رپورٹیں جاری کی گئی ہیں جن میں بھارتی مسلح افواج اور حکومت کو پاکستان پر حملے کے لیے اکسایا گیا اور پہل گام کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھی فکی نے ایسی ہی رپورٹ جاری کی تھی۔ اسی لیے بھارت کے ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف راہول آر سنگھ نے اس پلیٹ فارم کا انتخاب کیا۔ آپریشن سیندور سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں کس قسم کی جنگی اور دفاعی صلاحیت بھارتی مسلح افواج کے لیے ناگزیر ہے، اس خطاب میں راہول سنگھ نے اس پر بات کی ہے اور بہت سی ایسی باتیں کی ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے۔

بھارتی جرنیل اپنی شکست کا اعتراف تو کررہے ہیں، لیکن اپنی کم زوریوں‌ اور ناکامیوں‌ کو چھپانے کے لیے اور قوم کو مطمئن کرنے کے لیے یہ بیانیہ دماغوں میں‌ گھسانے کی کوشش کررہے ہیں کہ معرکۂ مئی 2025 میں بھارت کا مقابلہ صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس کو چین اور ترکی سے بھی جنگ کا سامنا تھا۔ وہ اسے ایک سرحد اور تین حریف کا نام دیتے ہیں۔ اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لیے وہ دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان کی 81 فیصد دفاعی مصنوعات کا انحصار چین پر ہے۔ جب کہ ترکی نے بھی پاکستان کو ڈرونز فراہم کیے ہیں۔ اس طرح یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ دوںوں ملک بھی بھارت سے جنگ کا حصہ تھے۔

اگر بھارتی جرنیل کا یہ مفروضہ مان لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت اپنے ہتھیاروں کا 36 فیصد روس سے 46 فیصد امریکا اور فرانس سے جب کہ باقی ماندہ اسرائیل سے خرید رہا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا مقابلہ دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں سے تھا۔ اور پاکستان یہ کہہ سکتا ہے کہ ایک سرحد اور چار دشمن جس میں دو سپر پاور اور ایک بے رحم جنگی مجرم تھا اور یوں‌ پاکستان نے ان سے بھی جنگ کی ہے۔

دنیا کو معلوم ہے کہ یہ جنگ خود بھارت نے شروع کی تھی اور اب وہ یہ کہہ رہا ہے کہ پاک بھارت معرکے میں چین نے اپنے اسلحے کی صلاحیت کو ٹیسٹ کیا ہے۔ مگر وہ یہ بھول گیا ہے کہ جنگ میں اسلحے سے زیادہ اس کو استعمال کرنے والے ہاتھ اہم ہوتے ہیں۔ یعنی بندوق نہیں بندوق کے پیچھے والا شخص اہمیت رکھتا ہے۔ اچھا نشانہ باز ایک عام سے بندوق سے بھی بہترین نشانہ لگا سکتا ہے۔ اور ایک عام نشانہ باز کو جنتا بھی اچھا اور بہترین اسلحہ یا بندوق فراہم کر دی جائے اس کا نشانہ چوک ہی جائے گا۔ اور ایسا ہی پاک بھارت معرکہ میں ہوا۔ بھارت روسی اور فرانسیسی طیاروں اور اسرائیلی ڈرونز کو استعمال کر رہا تھا۔ اور اس کو زعم تھا کہ وہ جدید اسلحے کے ساتھ پاکستان کو مات دے سکے گا۔ مگر اس جنگ کا نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور اب بھارتی جرنیلوں‌ اور فوج کے نمائندوں کو بھارتی حکومت نے عوام کے سامنے کردیا ہے جو وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں۔

چین کی جنگی حکمت عملی پر ایک جملہ Kill with a borrowed knife
(یعنی ادھار کی چھری سے قتل کرو) بھی اس حوالے سے سنا جارہا ہے۔ مشہور ہے کہ آج سے تقریباً تین سو سال قبل کسی فلسفی اور دانشور نے جنگ کی حکمتِ عملی طے کرتے ہوئے 36 نکات تحریر کیے تھے جن میں یہ نکتہ بھی شامل تھا۔ راہول سنگھ یہ کہنا چاہتے تھے کہ چین براہ راست بھارت سے لڑنے کے بجائے پاکستان کو استعمال کررہا ہے۔ مگر وہ یہ بتانا بھول گئے کہ جنگ کی ابتدا کس نے کی تھی۔ بھارت ایک علاقائی غنڈہ بن کر پاکستان پر چڑھ دوڑا تھا اور اب جب مار پڑی ہے تو اس کے بڑے اپنی قوم کو مفروضوں‌ پر مبنی جواب دے رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ میرے مقابلے میں فلاں فلاں بھی پاکستان کے ساتھ مل کر لڑا ہے۔

اسی طرح بھارتی جرنیل چین کی حکمراں جماعت چائنیز کمیونسٹ پارٹی، کی جنگی آلات کی تیاری سے متعلق حکمت عملی کو بھارت میں بھی اپنانے کی بات کرتے ہیں۔ چین نے مسلح افواج کے لیے جنگی آلات اور ہتھیاروں کی تیاری کے لیے سول ملٹری فیوژن کی حکمت عملی کو اپنایا ہے جس میں چین اپنی دفاعی اور سویلین تحقیق اور ٹیکنالوجی کو یکجا کر کے دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اور اب بھارتی جرنیل بھی اسی کو اپنانے کی بات کر رہے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی بھارتی جرنیل یہ بھی کہتے ہیں کہ مقامی سطح پر تیار کردہ دفاعی مصنوعات کی کارکردگی دعوؤں اور توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپریشن سندور کے دوران اہم ترین چیز تھی ایئر ڈیفنس اور اس کی کس طرح منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ اچھا اور خراب دونوں تھا۔ ہم مزید بھی بہت کچھ کر سکتے تھے۔ لوکل مصنوعات پر مشتمل نظام میں سے بعض نے اچھی کارکردگی دکھائی اور چند ایک توقع پر پورا نہیں اترے۔ یہ ایک چوہے بلی کا کھیل تھا۔ اس مرتبہ پاکستان نے ہماری شہری آبادی کو نشانہ نہیں بنایا، آئندہ ہمیں اس کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔ ہمیں ایئر ڈیفنس آرٹلری ڈرونز سسٹم تیار کرنا ہوگا اور بہت جلد اس پر کام شروع کرنا ہوگا۔ چین نے خود کو جنگ مین جھونکے بغیر اپنے پڑوسی کو استعمال کرتے ہوئے شمالی سرحد پر اپنے ہتھیاروں کو دیگر ہتھیاروں کے نظام کے خلاف ٹیسٹ کیا ہے جو کہ وہاں چین کو ایک لیبارٹری کی طرح دستیاب تھے۔ اس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔ ترکی نے پاکستان کو بہترین ڈرونز دے کر سپورٹ کیا۔ جنگ کے دوران ترکی کی جانب سے ڈرون آنا شروع ہوگئے تھے۔ ساتھ ہی تربیت یافتہ افرادی قوت بھی موجود تھی۔ اپنے خطاب میں بھارتی جرنیل نے فوجی اصطلاح "فور سی” (4Cs) استعمال کی۔ اور اسی تسلسل میں بات کرتے ہوئے بھارت کے پیچھے رہ جانے کا اعتراف کیا۔ سب بڑا اعترافِ شکست یہ تھا کہ بھارتی مسلح افواج کی نقل و حرکت پر پاکستان کی گہری نظر تھی۔ یعنی بھارت پاکستان کے خلاف جو بھی جنگی تیاری کررہا تھا اس کا علم نہ صرف پاکستان کو پہلے سے تھا بلکہ وہ بھارت کو مسلسل خبردار کررہا تھا کہ وہ کسی قسم کی جارحیت سے باز رہے۔ بھارتی جرنیل نے اپنے خطاب میں اعتراف کیا کہ معرکۂ مئی 2025 سے پہلے اور بعد میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان ہفتہ وار بات چیت میں پاکستان بھارت کو مسلسل آگاہ کر رہا تھا کہ ان کے کون کون سے یونٹس یا شعبے پاکستان پر حملہ کرنے کو تیار ہیں۔ اور پاکستان نے ڈی جی ملٹری آپریشن کی سطح پر بھارت کو جارحیت سے باز رہنے کی تلقین بھی کی۔

راہول سنگھ یہ بات کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو یہ صلاحیت چین کے سیٹلائٹ کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔ جو ایک غلط تاثر ہے۔ اگر یہ بات مان بھی لیں تو یہ بھی بھارت کی بڑی ناکامی ہے کہ وہ جنگ یا کسی حملے کی تیاری کو اپنے دشمن کی نظروں سے اوجھل نہ رکھ سکا اور اسے ہزیمت اٹھانا پڑی۔ پاکستان کو بھارت کی جنگی تیاری کا کس قدر علم تھا یہ پاکستان کے ایئر وائس مارشل اورنگزیب نے میڈیا بریفنگ میں بتا دیا تھا کہ جیسے ہی بھارت کے ستّر کے قریب طیارے فضا میں بلند ہوئے پاکستان ایئر فورس نے نہ صرف ان طیاروں کے الیکٹرک سگنلز کو شناخت کرلیا بلکہ ان طیاروں کی نشان دہی کے ساتھ یہ طے ہوگیا کہ کس طیارے کو پاک فضائیہ کا کون سا طیارہ ہدف بنائے گا۔ اور اسی حکمتِ عملی کی وجہ سے اس معرکے کا نتیجہ چھ صفر رہا۔

یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ دراصل بھارتی مسلح افواج یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اصل میں اسے پاکستان سے مار پڑی ہے اور شکست کھائی ہے۔ وہ یہ باور کروانے کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان ہمارے سامنے کھڑے ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر بھارت نے اسی سوچ کے ساتھ آئندہ بھی جنگ کی تیاری کی تو اس کا انجام بھی سندور جیسا ہی ہوگا۔