سانحہ سوات کی انکوائری رپورٹ پیش، کون ذمہ دار قرار؟

سانحہ سوات

سانحہ سوات میں سیلابی ریلے میں 17 افراد کے بہہ جانے والے المناک حادثے سے متعلق انکوائری رپورٹ وزیراعلیٰ کے پی کو پیش کر دی گئی۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سانحہ سوات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی پراونشل انسپکشن ٹیم کی انکوائری رپورٹ مکمل کر کے وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کو پیش کر دی گئی۔ 63 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں ذمہ داروں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ اس قسم کے واقعات سے نمٹنے کے لیے خامیوں کی نشاندہی اور کوتاہیاں دور کرنے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

اس رپورٹ میں فرائض سے غلفت کے مرتکب سرکاری اہلکاروں اور افسران کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے خلاف تادیبی کارروائیوں کی سفارش کی گئی ہے جب کہ وزیراعلیٰ کے پی نے کوتاہی کے مرتکب افراد کے خلاف تادیبی کارروائیوں کی منظوری دیتے ہوئے متعلق محکموں کو غفلت کے مرتکب اہلکاروں اور افسران کے خلاف تادیبی کارروائیاں کرنے کی ہدایت کی۔

ان متعلقہ محکموں میں ضلعی انتظامیہ، محکمہ آبپاشی، بلدیات اور ریسکیو 1122 شامل ہے۔ یہ ادارے 60 روز میں قانونی تقاضے پورے کر کے تادیبی کارروائیاں کریں گے اور 30 روز میں رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات، ریور سیفٹی اور بلڈنگ ریگولیشن کے لیے جامع ریگولیٹری فریم ورک تیار کرنے کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔

انکوائری رپورٹ کی سفارشات پر عملدرآمد کے لیے چیف سیکریٹری کی سربراہی میں اوورسائٹ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ کمیٹی سفارشات پر عملدرآمد سے متعلق پیشرفت پر ماہانہ رپورٹ وزیر اعلی سیکرٹریٹ بھیجےگی۔

اس کے علاوہ یہ کمیٹی ریور سیفٹی ماڈیولز کو اگلے مون سون کنٹینجنسی پلان کا حصہ بنانے کے ساتھ ریسکیو 1122 کی استعداد بڑھانے کے لیے منصوبے پر تیز رفتار عملدرآمد یقینی بنائے گی جب کہ محکمہ اطلاعات، ریلیف اور سیاحت کی جانب سے اس حوالے سے صوبہ بھر میں آگہی مہم چلائی جائے گی۔

دریں اثنا وزیراعلیٰ کی زیر صدارت اجلاس میں ریور ریسکیو پلان منظور کرتے ہوئے مستقبل کے لیے 66 ملین روپے سے 36 پری فیب ریسکیو اسٹیشنز، 739 ملین روپے سے ریسکیو آلات کی خریداری، 608 ملین روپے سے 70 کمپیکٹ ریسکیو اسٹیشنز اور 200 ملین روپے سے ڈیجیٹل مانیٹرنگ سسٹم قائم کرنے کی منظوری دی گئی۔

سانحہ سوات انکوائری رپورٹ کے خدوخال:

سانحہ سوات پر پراونشل انسپکشن ٹیم کی انکوائری رپورٹ میں پی ڈی ایم اے اور ضلع انتظامیہ کی ایڈوائزری پر صحیح معنوں میں عمل نہ کرنے کے ساتھ محکمہ پولیس، ریونیو، آبپاشی، ریسکیو، سیاحت اور دیگر متعلقہ محکموں میں رابطوں کے فقدان کی نشاندہی کی گئی ہے۔

اس رپورٹ میں سیاحوں کو خطرات سے آگاہ کرنے میں ہوٹل مالکان کی جانب سے غفلت کا مظاہرہ کرنے کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ حادثہ کے بعد ریسکیو 1122 کے ریساپنس میں تاخیر کا انکشاف کیا اور بتایا کہ اس کے پاس تربیت یافتہ عملہ اور آلات میسر نہیں۔

اس رپورٹ میں سیاحتی مقامات پر دریا کے کنارے خطرات کی کوئی نشاندہی اور درجہ بندی کی عدم موجودگی، مون سون میں عوام کے تحفظ کے لیے جامع ایس او پیز نہ ہونے، آبی گزرگاہوں پر تعمیرات میں قواعد وضوابط کی سنگین خلاف ورزیاں، دفعہ 144 کے نفاذ پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کے فقدان کو بھی ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دریائی سرگرمیوں کی موثر نگرانی کے لیے صوبائی قانون کی فوری ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

سانحہ کے بعد صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ کے اقدامات کو بھی انکوائری رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 26 جون کو دریائے سوات میں تفریح کے لیے آئی ہوئی ڈسکہ اور مردان سے تعلق رکھنے والی دو فیملیز کے 17 افراد اچانک آنے والے سیلابی ریلے میں بہہ گئے تھے۔

ان میں سے چار افراد کو بچا لیا گیا۔ 12 لاشیں نکال لی گئیں جب کہ بچے عبداللہ کی لاش نہ مل سکی۔

اس سانحہ کے بعد صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے دریاؤں کے کنارے تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کر دیا اور اب تک 127 غیر قانونی عمارتیں سیل، تجاوزات کے زمرے میں آنے والے ہوٹلز مسمار کر دی گئی ہیں۔

دوسری جانب مذکورہ سانحہ پر گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی کی جانب سے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔