الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کی تقسیم سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا

مخصوص نشستیں الیکشن کمیشن

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کی تقسیم سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

خیبر پختونخواہ اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی تقسیم پر چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، اے این پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے وکلا پیش ہوئے اور دلائل دیے۔

ن لیگ کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ جب جے یو آئی اور ہماری سیٹیں برابر ہیں، تو مخصوص نشستیں کیسے برابر نہیں ہو سکتیں؟ ہماری 8 اور جے یو آئی کی 10 سیٹیں کیسے ہو سکتی ہیں، نو، نو سیٹیں دونوں جماعتوں کو ملنی چاہیے تھیں، قانون کے مطابق برابر ہونے پر ٹاس ہو سکتا ہے۔ لیگی وکیل کا کہنا تھا کہ سیٹیں برابر ہونے پر ٹاس کیا جائے۔


خیبر پختونخوا میں سیاسی تبدیلی کے لیے اپوزیشن کی مشاورت


جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ نے دلائل میں کہا کہ ہمارے ساتھ جو ن لیگ نے طے کیا آج اس کے برعکس کیا جا رہا ہے، یہ رولز کی خلاف ورزی ہوگی اگر طارق اعوان کو 9 روز کے بعد بھی شامل کیا جائے۔

پیپلز پارٹی کے وکیل نئیر بخاری نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ مخصوص نشستوں کی تقسیم کا معاملہ جے یو آئی اور ن لیگ کے درمیان ہے، ن لیگ کا دعویٰ ہمارے خلاف نہیں ہے، یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے ساتھ ہے، ہمارا اس پر کوئی تنازع یا معاملہ نہیں ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ ضمنی انتخاب میں ہم ایک سیٹ جیتے ہیں، ہمارا یہ مؤقف ہے کہ جب انتخابات ہوئے اس کے بعد کی صورت حال کے مطابق سیٹیں دی جانی چاہیے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق 2 فیز میں نوٹیفکیشن ہوئے، پہلے تو سنی اتحاد کونسل والا معاملہ حل نہیں ہوا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے وکیل نے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ جنرل نشستوں کے بعد ہی مخصوص نشستیں ملنی ہیں، جتنی جنرل نشستیں ہوں گی اتنی ہی مخصوص نشستیں ملنی چاہیے، سب سے اہم مسئلہ کٹ آف تاریخ کا ہے۔

وکیل پی ٹی آئی پی نے کہا کہ مخصوص نشستیں واپس نہیں لی جا سکتیں، ہمارے تحفظات ہیں کہ ہمارے 2 نمائندوں کو ایک شمار کیا گیا ہے، نوٹیفکیشنز کے ساتھ اگر دیکھا جائے تو ہماری 2 مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مخصوص نشستوں کی تقسیم سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔