علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ’’آشفتہ بیانی میری‘‘

علی گڑھ مسلم آشفتہ بیانی میری

’’آشفتہ بیانی میری‘‘ رشید احمد صدیقی کی مشہور خودنوشت ہے جس میں رشید احمد صدیقی نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار کے ساتھ بالخصوص علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (ایم ۔اے۔او۔کالج) کی بہت مؤثر اور دل آویز تصویر پیش کی ہے۔ اس میں سر سید کے زمانے سے لے کر ڈاکٹر ذاکر حسین کے دور تک بہت سی چھوٹی بڑی شخصیتوں کی یاد کو زندہ کیا گیا ہے جن کو علی گڑھ نے اور جنھوں نے علی گڑھ کو کچھ نہ کچھ دیا ہے۔

یہ پارے علی گڑھ سے متعلق ہماری معلومات میں نہ صرف اضافہ کرتے ہیں بلکہ اس دور کی سیاسی، علمی فضا اور شخصیات کے کردار و کارناموں کی جھلک بھی دکھاتے ہیں۔ قاریئن کی دل چسپی کے لیے اس کتاب سے چند اقبتاسات پیش کیے جارہے ہیں۔

۱۸۵۷ء کے سانحہ کے بعد ہندوستان میں ایم ۔اے ۔او کالج علی گڑھ نے جو کردار ادا کیا اس کا بیان اپنی خودنوشت میں رشید احمد کچھ اس طرح کرتے ہیں:

’’غالباً مدرسۃ العلوم علی گڑھ (ایم ۔ اے۔او۔ کالج) ہی ایسا ادارہ تھا جس پر قوم کا پورے طور پر ہمیشہ بھروسا رہا جس نے بحیثیت مجموعی قوم کی سب سے مفید اور دیرپا خدمات انجام دیں اور جس کی خدمات کو متفقہ طور پر تقریباً ہر حلقے میں سراہا گیا۔ جس نے مسلمانوں کو ہر سمت سے تقویت پہنچائی، ان کے حوصلے اور عزائم کو پروان چڑھایا اور دور نزدیک ان کی توقیر بڑھائی۔ اس کی تاریخ میں وقتاً فوقتاً طرح طرح کے نشیب و فراز بھی آئے جن پر بحث کی جاسکتی ہے ۔ لیکن اس کی خدمات کے بیش بہا ہونے میں کوئی کلا م نہیں۔‘‘

سرسید احمد خان، مدرسۃ العلوم کا قیام، علی گڑھ کی تہذیبی روایت، سرسید کے رفقا کی کاوشوں کا تذکرہ رشید احمد صدیقی یوں کرتے ہیں:

’’سرسید مغلیہ سلطنت کی تباہی اور غدر کی ہولناکیوں سے برآمد ہوئے تھے۔ ان کی شخصیت ان صلاحیتوں پر مشتمل تھی جن کو ایک طرف مٹتے ہوئے عہد کا قیمتی ورثہ اور دوسری طرف اس کی جگہ لینے والے صحت مند تصرفات کی بشارت کہہ سکتے ہیں! وہ ایک ایسے رشتے یا واسطے کے مانند تھے جو ایک عظیم ماضی کو اس کے عظیم تر مستقبل سے منسلک و مربوط رکھتا ہے، جس کے بغیر نہ تو کسی قوم کے تہذیبی شعور میں ربط و تسلسل باقی رہتا ہے نہ خود نسلِ انسانی اس منزلت پر فائز ہوسکتی ہے جس کی بشارت دی گئی ہے۔ مدرسۃ العلوم کا قیام انھیں صلاحیتوں کا تقاضہ تھا جن کو سرسید اور ان کے رفقائے کرام نے اپنی تحریر، تقریر، شاعری، شخصیت، اور عمل محکم اور مسلسل سے متشکل ، مستحکم اور مزیّن کردیا۔‘‘

انھوں نے سرسید کی اہمیت و مرتبت سے متعلق لکھا:

’’وہ بڑے مخلص، ہمدرد، ذہین ، دلیر، عالی حوصلہ ، دور اندیش، اَن تھک اور ناقابل تسخیر تھے۔ ان میں جہاں داری اور جہاں بینی کی جھلک ملتی ہے جو کبھی ہمارے اسلاف کی صفات تھیں!‘‘۔

اس کتاب کے مطالعہ سے بہ یک وقت جہاں مکمل علی گڑھ اور اس کی روایات کی تصویریں ہمارے سامنے آجاتی ہیں، وہیں علی گڑھ کے طلباء، ان کے لباس کی وضع قطع، ڈسپلن، تہذیبی پاس و لحاظ، اور آداب و احترام وغیرہ پر بھی نظر جاتی ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’مقررہ یونی فارم میں، مقررہ اوقات میں، مقررہ آداب کے ساتھ ڈائننگ ہال جا کر ہر طرح کے ساتھیوں کے ہمراہ سالہا سال کھانا، پینا، ہر موضوع پر آزادی کے ساتھ گفتگو کرنا، طبیعت کتنی ہی بدحظ یا افسردہ کیوں نہ ہو کھانے کے میز پر اچھے لوگوں کے طور طریقے ملحوظ رکھنا، مانیٹروں (Monitars)، منشیوں، نوکروں سے طرح طرح کے مواقع پر عہد برآ ہونا، ایسی باتیں تھیں جو سیرت میں توازن اور شخصیت میں دل آویزی پیدا کرتی تھیں۔‘‘

’’علی گڑھ یونیورسٹی کی حیثیت محض ایک درسگاہ کی نہیں ہے ۔ اس کی نوعیت ایک وسیع خاندان کی بھی ہے۔ ایسا خاندان جو ہر طبقے اور مزاج کے ’’خورد و کلاں‘‘ پر مشتمل ہو۔‘‘

رشید احمد صدیقی اپنے دور میں علی گڑھ کی اہمیت، تہذیب و روایت کی قدر و قیمت اور ہر طرف اس کا بول بالا ہونے سے متعلق لکھتے ہیں:

’’اس زمانے میں کالج کی شوکت و شہرت پورے عروج پر تھی۔ کھیل میں، لکھنے پڑھنے میں، یونین کی سرگرمیوں میں، یورپین وضع قطع، رئیسانہ طور طریقوں اور شریفانہ رکھ رکھاؤ میں، چھوٹے بڑوں کے آپس کے سلوک میں غرض اس وقت کے معیار سے زندگی کا ہر پہلو بابرکت اور بارونق نظر آتا تھا اور ایک طرح کی آسودگی، احترام اور آرزومندی کی فضا چپّے چپّے پر چھائی ہوئی تھی۔‘‘