‘پرائڈ اینڈ پریجوڈیس'(Pride and Prejudice) کو دنیائے ادب میں ایک شاہکار ناول مانا جاتا ہے جس کی مصنفہ جین آسٹن ہیں۔ انگریزی ناول نگار جین آسٹن کے ناولوں کے کردار اور کہانیوں کا رومان اب بھی برقرار ہے جب کہ جین آسٹن 1817 میں آج ہی کے روز چل بسی تھیں۔ بوقتِ مرگ ان کی عمر محض 41 سال تھی۔
جین آسٹن نے چھ بڑے ناول لکھے جن میں انسانی فطرت اور رشتوں کی باریکیوں کو خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ مگر ان کہانیوں میں اس وقت کا سیاسی یا سماجی پس منظر کہیں نظر نہیں آتا۔ ناول نگار کے اکثر کردار بظاہر سیدھی سادی گھریلو لڑکیاں ہیں اور کسی قدر پیچیدہ اور منفرد شخصیت کی حامل ہیں۔ انھیں انگریزی ادب کی عظیم ناول نگار کہا جاتا ہے۔ جن کی وجہِ شہرت پرائڈ اینڈ پریجوڈس بنا۔ اس ناول کو دنیا کے دس عظیم ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے اور بشمول اردو کئی زبانوں میں اس کے تراجم مقبول ہوئے۔
اس انگریز ناول نگار نے اپنی زندگی میں چھے ناول مکمل کیے تھے جن میں سے دو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ چند سال قبل جین آسٹن کے ناول ایما کا پہلا منقش ایڈیشن بھی ریکارڈ قیمت پر نیلام ہوا تھا۔ یہ تین جلدوں پر مشتمل کتابیں جین آسٹن کی معرفت این شارپ کے نام منقّش کی گئی تھیں۔ این شارپ، جین آسٹن کی دوست اور ان کی بھتیجی کی گورنس تھیں۔
انگریزی کے کلاسیکی ادب کی اس ناول نگار کے فن و اسلوب کو کئی اہم اور قابلِ ذکر نقادوں نے سراہا ہے اور جین آسٹن کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ صاحبِ اسلوب اور انسانی فطرت اور رشتوں کی باریکیوں کو سمجھنے والی ایسی مصنف تھیں جنھوں نے نہایت پُراثر انداز میں اپنی کہانیاں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں اپنے فن و اسلوب کی بنیاد پر سراہے جانے والی جین آسٹن کے اسی فن و اسلوب پر شک و شبہات کا اظہار بھی کیا گیا۔ آکسفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر کیتھرین سودرلینڈ کی ایک تحقیق جو ناول نگار کی موت کے دو سو سال بعد سامنے آئی، اس میں کہا گیا ہے کہ جو کچھ ہم ناول میں دیکھتے ہیں، وہ کسی مدیر کی کاٹ چھانٹ کا نتیجہ ہے یہ بات انھوں نے چند سال قبل اس مصنفہ کے دریافت شدہ مسودوں کا مطالعہ کرنے کے بعد کہی تھی ان کے ہم خیال بعض ادبی محققین نے بھی سمجھتے ہیں کہ جین آسٹن کو صاحبِ اسلوب نہیں کہا جاسکتا بلکہ وہ صرف اختراع پسند اور تجربات کی شائق ایسی ناول نگار ہیں جو گفتگو اور مکالمہ نویسی پر زبردست گرفت رکھتی تھیں۔ انگریزی ادب کی محقق سودرلینڈ کا خیال ہے کہ یہ اسلوب جو جین آسٹن کی انفرادیت ہے، ان کے ایک معاون مدیر کا کارنامہ ہوسکتا ہے۔ مصنفہ کے غیر مطبوعہ اوراق کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنے والی سودرلینڈ نے کہا تھا کہ کئی جگہ ’گرامر کے لحاظ سے تصحیح‘ کے علاوہ ان مسودوں میں وہ سب نہیں جو ایما جیسے ناول میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کے باوجود انھیں ایسی ناول نگار کہنا چاہیے جو نئی سے نئی چیزوں کو سامنے لانے کی کوشش کرتی تھیں۔
جین آسٹن ایک برطانوی پادری کی بیٹی تھیں۔ ان کی والد شاعری کا شوق رکھتی تھیں۔ جین آسٹن 1775ء میں برطانیہ میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے طنز و مزاح سے اپنے لکھنے کا آغاز کیا تھا۔ ‘پرائڈ اینڈ پریجوڈیس’ ان کا وہ ناول ہے جس کا اردو ترجمہ بعنوان تکبر اور تعصّب بہت مقبول ہے۔ جین آسٹن کے دیگر ناولوں میں ‘مینز فیلڈ پارک’ اور ‘ایما’ کو بھی بے حد پسند کیا گیا۔ ایما پہلی بار 1816ء میں شائع ہوا تھا۔ Sense and Sensibility یعنی شعور و احساس اور Northanger Abbey وہ ناول تھے جو بہت بعد میں شائع ہوئے۔ مصنّفہ کے ناول کے کردار سماج اور اس کے اشراف ہیں۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں روایات، رویوں پر طنز اور ہلکے پھلکے انداز میں چوٹ کرتے ہوئے برطانوی سماج کے رویوں اور اخلاقی حالت کو بیان کیا۔