مامون کا حلم (دو حکایات)

خلیفہ مامون الرشید کا تذکرہ اور عباسی دور کے حکم رانوں کے طرز حکومت اور کارناموں کو ہم تاریخ کی کتب میں پڑھتے رہے ہیں۔ اس دور کے بہت سے قصّے بھی مشہور ہیں اور کئی حکایات بھی عربی سے اردو زبان میں ترجمہ کی گئی ہیں جو اس وقت کے حکم رانوں کی شخصیت اور ان کے مزاج کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہاں ہم خلیفہ مامون سے متعلق دو حکایات پیش کررہے ہیں۔

اس واقعہ کو سلیمان الورّاق نے روایت کیا ہے: میں نے مامون سے زیادہ حلیم الطبع شخص کبھی نہیں دیکھا۔ ایک دن میں اس کے پاس حاضر ہوا تو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک لمبوترا یاقوتِ احمر کا نگینہ ہے، جس کی چمک دمک نے ساری مجلِس منور کر رکھی تھی۔ وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا اور اس کی خوبصورتی اور صنعت میں گم نظر آ رہا تھا۔ پھر اس نے ایک صرّاف (سنار) کو طلب کیا اور اس سے کہا: اس نگینے سے فلاں قسم کی چیز بناؤ، اس میں یہ یہ نقش کرو، اور یوں اسے تراشو۔ اس نے صرّاف کو تفصیل سے بتایا کہ وہ کیا چاہتا ہے اور مکمل ہدایات دے کر نگینہ صرّاف کو دے دیا۔ صّراف نگینہ لے کر دربار سے رخصت ہو گیا۔ اس واقعے کو تین روز گزرے تھے کہ میں دوبارہ مامون کے دربار میں حاضر ہوا۔ اتفاق سے مامون کو وہ نگینہ یاد آ گیا اور اس نے فوراً صرّاف کو بلوا لیا۔ صرّاف آیا تو سب نے دیکھا کہ وہ کانپ رہا تھا، اور اس کا رنگ فق ہو چکا تھا۔

خلیفہ نے اس کی یہ حالت دیکھی تو خاطر اور نرمی سے پوچھا: ’’اس نگینے کا کیا ہوا؟‘‘ صرّاف گھبراہٹ کا شکار تھا، وہ کچھ بول نہ سکا۔ مامون کو احساس ہوا کہ ضرور کچھ گڑبڑ ہے، اس لیے اس نے چہرہ پھیر لیا تاکہ صرّاف کا اضطراب کچھ کم ہو جائے اور وہ قدرے سنبھل جائے۔ جب صرّاف تھوڑا سنبھلا تو مامون نے نرمی سے دوبارہ پوچھا۔ صرّاف نے کہا: ’’امان چاہتا ہوں، اے امیر المؤمنین!‘‘ مامون نے فرمایا: ’’تمہیں امان ہے، تمہیں امان ہے۔‘‘

یہ سن کر صرّاف نے جیب سے چار ٹکڑے نکال کر مامون کے سامنے رکھ دیے اور بولا: ’’یا امیر المؤمنین، نگینہ میرے ہاتھ سے سندان پر گر پڑا، اور یوں چار ٹکڑے ہو گیا جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔‘‘

مامون نے نرمی سے جواب دیا: ’’کوئی حرج نہیں، ان چاروں ٹکڑوں سے چار انگوٹھیاں بناؤ۔‘‘ پھر اس سے اتنی محبت و نرمی سے بات کی کہ مجھے گمان ہوا جیسے مامون چاہتا ہی یہی تھا کہ نگینہ چار حصوں میں بٹ جائے! جب صرّاف چلا گیا تو مامون نے ہم سے کہا: ’’جانتے ہو اس نگینے کی قیمت کیا تھی؟‘‘ ہم نے کہا: ’’نہیں۔‘‘ تو مامون نے کہا: ’’یہ رشید نے ایک لاکھ بیس ہزار درہم میں خریدا تھا۔‘‘

راوی اسے مامون کے حلم اور درگزر کی ایک عمدہ مثال بتاتا ہے۔

مامون کے حلم کی ایک اور مثال یحییٰ بیان کرتے ہیں۔ ان سے روایت ہے کہ ’’ایک دن میں اور مامون ایک باغ میں ٹہل رہے تھے۔ ہم باغ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پیدل چلے۔ اتفاق تھا کہ مجھ پر دھوپ پڑ رہی تھی اور مامون جس طرف تھا، وہ جگہ سایہ دار تھی۔ وہ بار بار مجھے کھینچ کر سائے میں لانے کی کوشش کرتا، مگر میں انکار کرتا۔ جب واپسی کا وقت آیا تو مامون نے کہا: ’خدا کی قسم، یحییٰ! اب تم میرے مقام پر کھڑے ہو گے اور میں تمہارے مقام پر، تاکہ میں بھی وہی دھوپ سہوں جو تم نے سہی۔‘

میں نے عرض کیا: ’امیر المؤمنین! اگر میرے بس میں ہوتا کہ قیامت کے دن کی ہولناکی سے بھی آپ کو بچا سکوں، تو ضرور بچاتا۔‘ لیکن مامون باز نہ آیا، یہاں تک کہ میں سائے میں چلا گیا اور وہ دھوپ میں رہا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھا اور کہا: ’میری زندگی کی قسم، تم بھی اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھو، جیسے میں نے تمہارے کندھے پر رکھا، کیونکہ اُس رفیق میں کوئی بھلائی نہیں جو انصاف نہ کرے۔‘

یہ روای کے نزدیک خلیفہ کے اعلیٰ اوصاف کی ایک مثال ہے۔

(کتاب نوادر الخلفاء سے انتخاب)