سندھ کا مری کہلانے والے تفریحی مقام گورکھ ہل اسٹیشن میں کروڑوں کے گھپلے سامنے آئے ہیں آڈٹ رپورٹ میں بدعنوانیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
سندھ کے ضلع دادو کے قریب واقع گورکھ ہل اسٹیشن جس کو اس کے بلند جائے وقوع کی وجہ سے سندھ کا مری بھی کہا جاتا ہے اور اکثر وہاں برفباری بھی ہوتی ہے۔
گورکھ ہل اسٹیشن کو سیاحوں کے لیے بہترین تفریح مقام بنانے کے لیے بڑے فنڈز مختص کیے گئے۔ تاہم جاری آڈٹ رپورٹ کے مطابق 3 ارب سے زائد اخراجات کے باوجود گورکھ ہل اسٹیشن پر آج بھی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس حوالے سے سامنے آنے والی آڈٹ رپورٹ میں گورکھ ہلز اتھارٹی میں بھرتیوں، ٹھیکوں اور خریداریوں میں بدعنوانیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
آڈٹ رپورٹ میں یہ ہوشربا انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ گورکھ ہلز کے لیے جن چار ٹھیکیداروں کو سب سے زیادہ ٹھیکے دیے گئے۔ ان کے گھر کا ایڈریس ایک ہی نکلا۔ ان ٹھیکیداروں میں مہوش شوکت، محمد علی چوہان، ماجد علی چوہان اور راشد علی چوہان شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق تمام ٹھیکیداروں کے گھر کا پتہ کراچی پی آئی بی کالونی جیل روڈ ہاؤس نمبر ون ہے۔ چاروں ٹھیکیداروںکو تین کروڑ 85 لاکھ روپے کے ٹھیکے دیے گئے۔
آڈٹ رپورٹ میں گورکھ ہلز اتھارٹی کے 8 سال کے اکاؤنٹس کے حوالے سے بھی انکشافات کیے گئے ہیں۔
آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 10 اپریل کو اتھارٹی سے تحریری طور پر جواب مانگا گیا، لیکن نہیں دیا گیا۔ ٹھیکیداروں سے ٹیکس وصول نہ کر کے بھی انہیں فائدہ پہنچایا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اسٹامپ ڈیوٹی کی مد میں ایک کروڑ ٹیکس نہیں کاٹا گیا جب کہ دو کروڑ 43 لاکھ روپے کا جنرل سیلز ٹیکس بھی نہیں کاٹا گیا۔