احمد بن طولون کا انصاف (نوادرالخلفاء سے انتخاب)

arab urdu story

مصر کے ایک حاکم احمد کو اس دور کے دستور کے مطابق اپنے باپ کے نام کی نسبت سے احمد بن طولون پکارا جاتا ہے۔ اس والیِ مصر کا تذکرہ ایک بہادر اور عادل و منصف کے طور پر کیا گیا ہے اور اس سے چند حکایات بھی منسوب ہیں۔

مزید حکایات اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

بعض تاریخی کتب اور تذکروں میں احمد بن طولون کے باپ کو ایک ترک غلام لکھا گیا ہے جو عباسی خلیفہ مامون الرشید کی فوج میں شامل تھا۔ احمد پیدا ہوا تو اسے بھی تعلیم و معاشرت کے مراحل طے کرنے کے بعد فوجی تربیت دی گئی۔ وہ بیس سال کی عمر میں اس وقت کے مصر کے حکم راں‌ بایکباک کی فوج میں شامل ہوا۔ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور ذہانت کے سبب 868ء میں مصر کا حاکم مقرر ہوا۔ چند سال بعد عباسی خیلفہ مہدی کے زمانہ میں اسے مصر میں خود مختار فرماں روا بنا دیا گیا۔ احمد بن طولون کو مردم شناس اور علم دوست حکم راں بھی کہا جاتا ہے۔

جب احمد بن طولون نے مصر کے شہر قاہرہ میں وہ عظیم الشان جامع مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا جو آج اسی کے نام سے مشہور ہے، تو اس پر ایک لاکھ دینار کی خطیر رقم خرچ کی۔ پھر علما، قرّاء، اربابِ شعائر اور متعلقہ مکانات کے لیے ماہانہ دس ہزار دینار کی باقاعدہ رقم مقرر کر دی، اور روزانہ صدقے کے لیے سو دینار وقف کیے۔

یہ مسجد نہ صرف عبادت کا مقام تھی، بلکہ سلطان نے اس کے ذریعے خیر، عدل اور دینی شعائر کی نگہبانی کا بھی کام لیا۔ کہتے ہیں کہ اس مسجد کے آس پاس ایک غریب آدمی اپنی بیوی اور جوان بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ ماں بیٹی گھر میں بیٹھ کر سوت کاتا کرتی تھیں تاکہ گزر بسر میں کچھ آسانی ہو اور ماں چاہتی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کا جہیز بھی تیار کرسکے۔ لڑکی باحیا، پردہ دار اور شریف تھی۔ وہ کبھی گھر سے باہر نہ نکلی تھی۔

ایک دن اس نے والدین سے فرمائش کی کہ وہ بھی سوت لے کر ان کے ساتھ بازار جائے گی۔ چنانچہ وہ گھر سے بازار کے لیے نکلے۔ تینوں بازار کی طرف بڑھے، تو راستے میں ایک مقام پر ایک درباری امیر الفیل کا دروازہ پڑا۔

اتفاق تھا کہ ماں باپ کسی بات میں مشغول ہو کر آگے بڑھ گئے اور بیٹی بھی دھیان نہ رکھ سکی کہ وہ راستے میں اِدھر اُدھر ہوتی ماں باپ سے فاصلہ پر رہ گئی ہے۔ اس لڑکی کی جب نگاہ اٹھی تو ماں باپ نظر نہ آئے۔ وہ گھبرا کر وہیں کھڑی ہو گئی۔ اس کے دل میں خوف تھا اور چہرے پر حیرت۔ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جائے تو کہاں، اور کس طرف قدم بڑھائے۔

یہ لڑکی حسن و جمال میں بے مثال تھی۔ اتفاق سے اسی لمحے امیر الفیل محل سے باہر نکلا اور جب اس کی نظر اس دوشیزہ پر پڑی تو دل و دماغ پر عاشقانہ جنون چھا گیا۔ وہ اُسے پکڑ کر اندر محل نما گھر میں لے گیا۔ پھر اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ لڑکی کو نہلا کر، خوشبو لگا کر، عمدہ لباس پہنا کر اُس کے لیے تیار کریں۔ اس بد بخت کی نیّت خراب ہوچکی تھی۔ اسے لڑکی سے دو باتیں‌ کرکے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ تنہا بھی ہے اور اس کا باپ بھی کوئی بااثر اور بڑا آدمی نہیں ہے۔ اس نے لڑکی کی عصمت دری کی اور مردود بن گیا۔

ادھر ماں باپ اپنی بیٹی کے یوں بچھڑ جانے کے بعد بدحواسی کے عالم میں راستے پر واپس لوٹے، لیکن وہ کہیں نہ ملی۔ اب وہ شہر بھر میں اسے ڈھونڈتے پھرے، مگر کہیں ان کو اپنی بیٹی کا سراغ نہ ملا۔ وہ رات ہونے پر رنج و غم سے نڈھال، روتے بلکتے، گِریہ و زاری کرتے گھر لوٹ گئے۔

نیند تو ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ دونوں‌ بیٹی کی جان و آبرو کی سلامتی کے لیے دعا کررہے تھے کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی۔ غریب باپ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک اجنبی کھڑا ہے۔

اس نے سلام کرکے غریب آدمی کو بتایا کہ "تمہاری بیٹی کو سلطان کے امیر الفیل نے اٹھایا ہے اور اس کی عصمت دری کی ہے۔”

یہ سن کر لڑکی کے باپ پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑا۔ وہ اتنے بڑے آدمی کے خلاف کیا کرے اور کیسے اپنی بیٹی تک پہنچے…اسے کچھ نہیں‌ سوجھ رہا تھا۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا اور وہ بیتابی سے اس مسجد کے مؤذن کی طرف دوڑا جو اس کے گھر کے قریب تھی۔

دراصل اس مسجد کو خاص اہمیت حاصل تھی کیوں کہ اسے والیِ مصر احمد بن طولون نے تعمیر کروایا تھا۔ وہاں کے مؤذن کو احمد بن طولون نے ہدایت کر رکھی تھی کہ اگر شہر میں کسی پر ظلم ہو اور ایسا واقعہ پیش آئے جس میں کوئی بڑا درباری ملوث ہو، تو مخصوص وقت سے ہٹ کر اذان دے۔ اور سلطان کے خاص سپاہی اذان سن کر فوراً مؤذن سے معاملہ پوچھیں۔

غریب آدمی نے مؤذن کو نیند سے بیدار کردیا اور اپنی مشکل بتائی تو اس نے فوراً مینار پر چڑھ کر اذان دی۔ اگلی صبح یہ معاملہ احمد بن طولون کے دربار میں پہنچ چکا تھا۔ لڑکی کے ماں باپ دربار میں موجود تھے اور جب وہ بدبخت امیر الفیل معمول کے مطابق دربار میں حاضر ہوا تو سلطان نے اس پر سختی کی۔ پھر اس لڑکی کے باپ سے کہا: "میں اپنے اس غلام سے تمہاری بیٹی کے نکاح کا اعلان کرتا ہوں۔”

لڑکی کے باپ نے اس کا فیصلہ قبول کرلیا اور گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ اس امیر سے لڑکی کا نکاح کردیا گیا۔ خاص بات یہ تھی کہ سلطان نے بڑی رقم مہر میں رکھی تھی جس سے انکار کی جرأت امیر الفیل نہ کرسکا تھا۔

نکاح کے بعد احمد بن طولون نے جلّاد کو بلایا اور حکم دیا کہ امیر الفیل کا سر تن سے جدا کر دے۔

چند لمحوں میں اس کا سر کٹ کر زمین پر گرا ہوا تھا۔ پھر ابن طولون نے لڑکی کے باپ سے کہا: "اب تمہاری بیٹی بیوہ ہے، اور شوہر کی ساری متروکہ دولت پر اس کا حق ہے۔”

"جاؤ۔ اطمینان سے زندگی بسر کرو۔” ماں باپ فرطِ جذبات سے روتے اور سلطان کو دعا دیتے محل سے روانہ ہوگئے۔

(عربی حکایات کے اردو ترجمہ نوادر الخلفاء سے انتخاب)