راجہ مہدی علی خاں: معروف مزاح نگار اور سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

راجہ مہدی علی خاں کا نام فن و ادب کے شیدائیوں کے لیے نیا نہیں اور وہ لوگ جو اردو ادب کا مطالعہ کرتے ہیں، راجہ صاحب کے قلم کی روانی، اور جولانیِ طبع کے ضرور معترف ہوں گے، لیکن نئی نسل کے قارئین نے کم ہی بحیثیت ادیب اور شاعر راجہ مہدی علی خاں کو پڑھا ہوگا۔ بیسویں صدی کے معروف مزاح نگار، مقبول ترین ادیب اور کئی سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

راجہ صاحب کی شخصیت بھی بڑی دل چسپ اور ان کی زندگی ہنگامہ خیز تھی۔ وہ بھارت ہی نہیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی اپنی ادبی تخلیقات اور طنز و مزاح پر مبنی تحریروں کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بھی راجہ صاحب کی شہرت خوب تھی۔ اپنے دور کے تمام بڑے اخبار و جرائد میں ان کی تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں اور اُن کے رشحاتِ قلم اردو داں طقبہ میں ان کی مقبولیت کا سبب تھے۔ راجہ صاحب کے قلم کی خوبی یہ تھی کہ وہ بیک وقت نثر اور نظم دونوں میدانوں میں رواں رہا اور ہر دو اصناف میں راجہ مہدی علی خاں نے خود کو منوایا۔ وہ ان قلم کاروں میں سے تھے جن کی تحریر پڑھنے کے لیے قاری ادبی پرچے خریدا کرتے تھے۔ انھیں ادبی مجالس اور حلقۂ یاراں میں بہت اہمیت دی جاتی تھی اور ہم عصر ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے۔

راجہ مہدی علی خاں نے اداریے بھی لکھے اور طنز و مزاح پر مبنی تحریریں بھی جن کا بہت چرچا ہوا۔ ان کی ادبی چشمکیں اور معرکہ آرائیاں بھی خوب تھیں بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ راجہ صاحب کے ادبی جھگڑے بہت مشہور تھے۔

راجہ مہدی علی خان غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد میں 1915 میں پیدا ہوئے۔ بعض ادبی تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ ان کا تعلق وزیر آباد سے تھا جو بعد میں‌ پاکستان کا حصّہ بنا۔ وہ ایک زمین دار خاندان کے فرد تھے۔ وہ بہت چھوٹی عمر میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے۔ والدہ علم و ادب سے وابستہ تھیں اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں۔ ان کی بدولت راجہ مہدی علی خان بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور شاعری کا آغاز کیا۔ خالص علمی اور ادبی ماحول میں پرورش پانے والے راجہ صاحب صرف دس برس کے تھے جب انھوں نے والدہ کی ہمّت افزائی اور مدد سے بچّوں کا ایک رسالہ جاری کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل راجہ صاحب دہلی منتقل ہو گئے تھے۔ وہاں انھیں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی۔ اسی زمانہ میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے رفاقت پروان چڑھی اور ان کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں نے بمبئی میں فلمی دنیا سے ناتا جوڑا۔

راجہ صاحب کو جس پہلی فلم کے لیے بطور گیت نگار کام کرنے کا موقع ملا وہ ’’شہید‘‘ تھی۔ اس فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے اور یوں راجہ صاحب نے اپنی شاعری کا سکّہ سب پر جما دیا۔ فلم کا ایک مقبول نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی سدا بہار کہلایا۔ انھیں دوسری مرتبہ فلم ’’دو بھائی‘‘ کے لیے گیت نگاری کا موقع دیا گیا اور اس فلم کے بھی گیت بھی بے حد پسند کیے گئے۔ راجہ مہدی علی خاں کے مشہور فلمی گیتوں‌ میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ گیت شامل ہیں۔ یہ اس زمانہ کے وہ فلمی گیت ہیں جو آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ ان فلمی گیتوں کی شاعری کے علاوہ موسیقی بھی بے مثال ہے۔ راجہ صاحب کا فلمی دنیا میں سفر بیس برس جاری رہا۔ اس عرصہ میں‌ انھوں نے 75 فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ وہ اپنے عہد کے مقبول ترین ادیب اور شاعر تھے جن کی تخلیقات نے ہر ذہن اور دل پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی۔ راجہ مہدی علی خاں نے مزاحیہ شاعری بھی کی اور بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھیں۔ ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری اور چند پیروڈیاں بہت مقبول ہوئیں۔ یہ نظمیں فرسودہ روایات اور اس چلن کا پوسٹمارٹم کرتی ہیں، جن سے اس وقت کا معاشرہ آلودہ ہورہا تھا اور بعض نظمیں منافقت اور تکلیف دہ انسانی رویوں پر چوٹ کرتی ہیں ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے راجہ صاحب نے بغرضِ اصلاح اپنی یہ نظمیں لوگوں تک پہنچائیں۔ راجہ صاحب کے دو شعری مجموعے ”مضراب‘‘ اور ”اندازِ بیاں اور‘‘ منظر عام پر آئے۔

راجہ مہدی علی خاں بہترین مترجم بھی تھے۔ ان کی تصنیف و تالیف کردہ متعدد کتب میں مثنوی قہرالبیان، راج کماری چمپا، ملکاؤں کے رومان، چاند کا گناہ بہت مشہور ہیں۔ انھوں نے ممبئ میں وفات پائی۔