خواجہ احمد عباس اور شناختی کارڈ

khawaja ahmed abbas

خواجہ احمد عباس اردو کے معروف افسانہ نگار، فلمی ہدایت کار، کہانی نویس اور صحافی تھے۔ وہ ایک بڑے فن کار ہی نہیں بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ خواجہ احمد عباس کا شمار ہندوستانی سنیما کی سرکردہ شخصیات میں کیا جاتا ہے۔ ان کی لکھی ہوئی فلمی کہانیوں میں سے کئی نہ صرف سپر ہٹ ثابت ہوئیں بلکہ سنیما کی تاریخ میں ان کا ذکر آج بھی کیا جاتا ہے۔

خواجہ صاحب بے خوف اور نڈر اور ایسے قوم پرست مشہور تھے جو انسانیت پر پورا بھروسہ رکھتا تھا۔ وہ یکم جون 1987ء کو انتقال کرگئے تھے۔ 1988 میں نئی دہلی سے نکلنے والے ادبی جریدے آجکل میں شایع کردہ ایک مضمون میں خواجہ صاحب سے متعلق ایک واقعہ پڑھنے کو ملتا ہے جو ان کے شخصی اوصاف کو اجاگر کرتا ہے۔

خواجہ صاحب انسان کی کمزوریوں سے واقف تھے، اس لیے اگر کوئی ان کے ساتھ نازیبا سلوک کرتا تو ناراض نہ ہوتے۔ بلکہ اس سے پیشتر کوئی متعلقہ آدمی معافی مانگے، وہ اسے معاف کر دیتے۔ گویا درگزر ان کا ایک بڑا اور قابلِ ستائش تھا۔ ایک ایسا ہی واقعہ سید شہاب الدین دسنوی کی زبانی سنیے۔

"خواجہ احمد عباس کی وطن دوستی اور انقلابی سر گرمیوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جائے گا۔ اس سلسلے میں اس دھان پان شخص پر کیا کیا گزری، اس کا علم ان کے ساتھیوں کو ہے۔ ایک واقعہ میری نظر کے سامنے کا ہے، جنگ کا زمانہ تھا۔ پوری بندر کے علاقے میں ہم ایکسلیئر سنیما میں کوئی انگریزی فلم دیکھنے گئے ہوئے تھے۔ فلم ختم ہونے پر جب لوگ باہر نکلے تو پانچ چھ انگریز فوجیوں نے عباس کو گھیر لیا اور ان سے شناختی کارڈ طلب کرنے لگے۔

لیکن شناختی کارڈ رکھنے کا کوئی قانون نہ تھا۔ عباس حیران تھے کہ اس بے تکے مطالبے کا مقصد کیا ہے۔ لیکن فوجیوں کو تو چھیڑ خانی سے غرض تھی۔ انہوں نے عباس پر گھونسوں کی بارش شروع کر دی۔ میرے ساتھ کچھ اور لوگ جو سنیما سے باہر نکلے تھے اور دور سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ ہم عباس کی مدد کے لیے ان کی طرف دوڑے۔ ایک شور برپا ہوا اور فوجیوں نے لوگوں کا رنگ دیکھ کر وہاں سے فرار ہونے ہی میں عافیت سمجھی۔ جب ہم لوگ عباس کے پاس پہنچے تو وہ نہایت اطمینان سے اپنے کوٹ کی شکن درست کر کے کچھ کہے سنے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے عدم تشدد کے ستیہ گرہی کی طرح وہ گاندھی جی کے آدرش پر عمل پیرا تھے۔