اردو زبان و ادب میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے، وہ بہت کم اہلِ قلم کو نصیب ہوتا ہے وہ ایک بلند پایہ نقّاد، معتبر محقق اور ماہرِ لسانیات تھے۔ فرمان فتح پوری کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔ ان کے مضامین و مقالات اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔
وہ غیرمنقسم ہندوستان میں فتح پور شہر میں 26 جنوری 1926ء کو پیدا ہوئے فرمان فتح پوری کا اصل نام سیّد دلدار علی تھا۔ ابتدائی تعلیم گھرپر والد اور چچا سے حاصل کی۔ علاوہ ازیں، قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ مصدرنامہ، گلستان بوستان بھی گھر ہی پر پڑھیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں کراچی میں سکونت اختیار کی اور تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور بعد میں پی ایچ ڈی کیا۔ بعدازاں اسی مادرِ علمی میں اردو ادب کی تدریس کا آغاز کیا۔
فرمان فتح پوری کا میدان تنقید اور تحقیق تھا اور وہ زبان و بیان کی باریکیوں کے ساتھ علمی و ادبی موضوعات کے بڑے نکتہ بیں تھے۔ انھیں ندرتِ خیال اور نکتہ رسی کے لحاظ سے اردو زبان میں پائے کا نقّاد مانا جاتا ہے۔ ان کی پچاس سے زائد تصانیف ہیں جو اردو زبان و ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور ناقد ان کی ادبی خدمات اور کارناموں کے معترف رہے اور انھیں پائے کا نقّاد تسلیم کیا جن کے ہاں موضوعات کا تنوّع پایا جاتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب درس و تدریس کے ساتھ ساتھ نظم و نثر اور ادب کی جملہ اصناف اور متعدد اسالیب پر اپنی مدلّل اور جامع رائے اور تنقید کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ فرمان فتح پوری نے اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان، دریائے عشق اور بحرالمحبّت کا تقابلی مطالعہ اور اردو املا اور رسم الخط اور دیگر موضوعات پر خوب کام کیا۔ وہ تقریباً تین دہائیوں تک اردو لغت بورڈ سے وابستہ رہے اور 2001ء سے 2008ء تک اس ادارے کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اردو لغت کی کئی جلدیں ان کی نگرانی میں مکمل ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ فرمان فتح پوری کا حافظہ نہایت قوی تھا۔ رفتگانِ علم و ادب کے نام اور ان کے کام کی تفصیل انھیں ازبر تھی۔ جامعہ کراچی نے فرمان فتح پوری کو پروفیسر ایمیریٹس بنایا۔ جہاں ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ مضامین ایک دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں وہیں ان کی کتاب ’اردو ہندی تنازع‘ نہایت مستند مانی جاتی ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری 2013ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔