ٹونی موریسن: امریکا کی عظیم ناول نگار کا تذکرہ

نوبیل انعام یافتہ ٹونی موریسن کو ان کے ناول ‘محبوب‘ (Beloved) کی اشاعت کے بعد 1988ء میں فکشن کا پلٹزر پرائز بھی دیا گیا تھا۔ ان کا یہ ناول ایک ایسی ماں کی زندگی کے بارے میں ہے، جو اپنی بیٹی کو غلامی کی زنجیر میں جکڑنے سے بچانے کے لیے قتل کرنے کا اذیت ناک فیصلہ کرتی ہے۔

ٹونی موریسن امریکا کے سیاہ فام ادیبوں میں بہت منفرد اور اعلیٰ مقام کی حامل تھیں جن کو افریقی نژاد امریکی مصنفین کی اہم ترین نمائندہ بھی سمجھا جاتا تھا۔ ان کی مشہور تصانیف میں ‘انتہائی نیلی آنکھیں‘، ‘سلیمان کا گیت‘، ‘انسان کا بچہ‘، ‘جاز‘ اور ‘جنت‘ شامل ہیں۔

وہ پہلی امریکی سیاہ فام مصنّف تھیں جن کو 1993ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ ٹونی موریسن ایک بے مثل فکشن رائٹر کے طور پر ہی نہیں بااثر سیاہ فام خاتون بھی مشہور ہوئیں۔ وہ 2019ء میں آج ہی کے دن چل بسی تھیں۔ ٹونی موریسن نے 1931ء میں اوہائیو کے ایک قصبے میں جنم لیا۔ ان کا بچپن غربت اور تعصب پر مبنی سلوک دیکھتے ہوئے گزرا۔ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ سفید چمڑی والوں کا توہین آمیز رویہ ان کی تلخ یادوں کا حصہ رہا۔ وہ ایک مزدور کی بیٹی تھیں۔ لیکن تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہوکر عملی زندگی میں درس و تدریس کو بطور پیشہ اپنایا اور ادب کے مطالعہ کا شوق اپنایا تو خود بھی لکھنے لگیں۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عظیم قلم کار کے طور پر سامنے آئیں اور کئی مشاہیر اور اعلیٰ منصب دار ان کے فن و افکار سے متاثر ہوئے۔ ان میں‌ سابق امریکی صدر بارک اوباما بھی شامل ہیں۔ انہی کے دورِ صدرات میں ٹونی موریسن کو ‘صدارتی میڈل آف آنر‘ بھی دیا گیا تھا۔ سویڈش اکیڈیمی نے نوبیل انعام کا اعلان کرتے ہوئے ٹونی موریسن کے طرزِ تحریر، لسانی انفرادیت اور بطور مصنّف ان کی بصیرت کو ان الفاظ میں سراہا تھا، ‘ٹونی موریسن اپنے ناولوں میں تخیلاتی قوتوں کو بروئے کار لاتی ہیں، ان کی نثر شاعرانہ ہے، وہ زندگی کے ایک لازمی حصے کے طور پر امریکی بدیہی حقیقت کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ اپنے بیانیے کی سچائی کے اظہار میں وہ بے رحم ہیں۔’

وہ امریکا کی ایک ایسی مصنفہ کہلائیں جس نے فکشن کی زبان کو نئے طلسم اور سحر انگیزیوں سے آشنا کیا اور زبان کو آزادی کے رمز اور نعمت سے سرشار کیا۔ وہ سیاہ فاموں کو مستقبل کی نوید سنانے والی خاتون تھیں اور ہمیشہ سیاہ فام نسل کو یہ یقین دلاتی رہیں کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ دانش ور اور اہل قلم سمجھتے ہیں کہ ٹونی موریسن نے اپنے لفظوں سے غلامی کی زنجیرکو توڑا اور زبان سے بے پایاں محبت کے استعارے تخلیق کیے۔

ٹونی موریسن 1967ء سے1983ء تک افریقی امریکی رائٹر کے طور پر رینڈم ہاؤس کی ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز رہیں۔ انھوں نے پرنسٹن اور دیگر یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ پروفیسر نولیوے روکس کے مطابق ان کے پہلے ناول ”دی بلیوسٹ آئی” کو ایک سنگ میل کی حیثیت سے دیکھا جائے گا جو ایک سیاہ فام لڑکی کی زندگی کے گرد گھومتا ہے۔ یہ وہ ناول تھا جس نے بلاشبہ موریسن کی شہرت کو چار چاند لگا دیے تھے۔ ٹونی موریسن کی ایک تصنیف ‘سلیمان کا گیت‘ (Song of Solomon) بھی بہت مقبول ہوئی اور آج بھی اس ناول کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔

ناول نگار ٹونی موریسن نیویارک میں مقیم تھیں اور وہیں ان کی زندگی کا آخری دن تمام ہوا۔