ساحرؔ کے بجھے ہوئے سگریٹ اور امرتا کے تخیل کی کرامات

پنجابی زبان کی مقبول شاعرہ اور ادیب امرتا پریتم کی آپ بیتی رسیدی ٹکٹ ان کی زندگی کی وہ جھلک دکھاتی ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امرتا پریتم ایک آزاد اور بے باک قلم کار تھیں۔

برصغیر کے مشہور شاعر ساحر لدھیانوی سے امرتا پرتیم کے عشق اور ان کے درمیان ملاقاتوں کا بھی خوب چرچا ہوا تھا۔ اور پھر امرتا نے اپنی آپ بیتی میں ساحر سے متعلق اپنے جذبات اور چند واقعات بھی لکھے ہیں۔ امرتا اور ساحر ایک تو نہیں ہو سکے لیکن دہائیاں گزر جانے کے باوجود بھی ان کی کہانی زندہ ہے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتی‌ ہیں:

لاہور جب کبھی ساحرؔ ملنے آیا کرتا تھا تو گویا میری ہی خاموشی میں سے خاموشی کا ٹکڑا، کرسی پر بیٹھتا اور چلا جاتا تھا۔ وہ چپ چاپ سگریٹ پیتا رہتا تھا۔ قریب آدھا سگریٹ پی کر راکھ دانی میں بجھا دیتا اور پھر نیا سگریٹ سلگا لیتا اور اس کے جانے کے بعد صرف سگریٹوں کے بڑے بڑے ٹکڑے کمرے میں رہ جاتے تھے۔ کبھی ایک بار اس کے ہاتھ کا لمس لینا چاہتی تھی، لیکن میرے سامنے میرے ہی رواجی بندھنوں کا فاصلہ تھا جو طے نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت بھی تخیل کی کرامات کا سہارا لیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد میں اس کے چھوڑے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے سنبھال کر الماری میں رکھ لیتی تھی اور پھر ایک ایک ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھ کر جلاتی تھی اور جب ان کو انگلیوں میں پکڑتی تھی، محسوس ہوتا تھا جیسے اس کا ہاتھ چھو رہی ہوں۔ سگریٹ پینے کی عادت مجھے اس وقت پہلی بار پڑی۔ ہر سگریٹ سلگاتے وقت محسوس ہوتا…. وہ پاس ہے۔ سگریٹ کے دھوئیں میں سے جیسے وہ جن کی طرح نمودار ہو جاتا تھا۔ پھر برسوں بعد، اپنے اس احساس کو میں نے ’ایک تھی انیتا‘ ناول میں قلم بند کیا۔ لیکن ساحرؔ کو ابھی تک سگریٹ کی اس تاریخ کا علم نہیں۔‘‘