فلسطینی ریاست کے قیام پر امریکا اور برطانیہ میں اختلاف برقرار

پرتگال اور جرمنی نے بھی فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اشارہ دیدیا

فلسطینی ریاست کے قیام پر امریکا اور برطانیہ میں اختلاف برقرار ہے۔

اسرائیل کا سب سے بڑا حامی امریکا فلسطینی ریاست تسلیم کرنے سے بدستور انکاری ہے۔ فلسطینی ریاست کے معاملے پر امریکا اور برطانیہ میں سفارتی بات چیت ہو گی۔

امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کا کوئی فعال حکومتی ڈھانچہ موجود نہیں، ہدف ہے حماس دوبارہ اسرائیلی شہریوں پر حملہ نہ کر سکے حماس کا خاتمہ امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی بحران کے حل کےلیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔

فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے معاملے پر امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے فرانس اور برطانیہ پر شدید تنقید کی ہے، فلسطینی ریاست صرف اسرائیل کی منظوری سے ممکن ہے، مغربی ممالک فلسطینی ریاست کا نقشہ بھی نہیں دے سکتے۔

امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے مغربی ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کو غیرمتعلقہ قرار دیدیا۔

انھوں نے کہا کہ نہیں بتاسکتے فلسطینی ریاست کہاں ہوگی، کون حکومت کرےگا، فرانس اور برطانیہ کا فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ داخلی سیاست پر مبنی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا کی حکومت غور کر رہی ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جائے اور اس کی شرائط کیا ہوں گی۔

برطانوی وزیراعظم اور آسٹریلیا نے اسرائیل کے غزہ پر کنٹرول سے متعلق فوری نظر ثانی کی اپیل کی ہے۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل کا غزہ شہر کا کنٹرول سنبھالنے کا فیصلہ غلط تھا اور اسرائیلی حکومت پر دوبارہ غور کرنے کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی حکومت کا غزہ میں جارحیت کو مزید تیز کرنے کا فیصلہ غلط ہے، اور ہم اس پر فوری طور پر نظر ثانی کرنے کی اپیل کرتے ہیں، غزہ میں ہر روز انسانی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے فوری جنگ بند کی جائے۔

دوسری جانب آسٹریلوی وزیرِ خارجہ پینی وونگ نے کہا اسرائیل غزہ پر فوجی قبضے کی جانب مت جائے، اس سے صورتحال مزید خرابی کی طرف چلی جائے گی۔

آسٹریلوی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ آبادی کو بےگھر کرنا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، انہوں نے مزید کہا دو ریاستی حل ہی پائیدار امن کو محفوظ بنانے کا واحد راستہ ہے۔