حاتم طائی کا امتحان (حکایتِ سعدی)

دنیا میں عقل و دانائی، حکمت و نصیحت پر مبنی واقعات پر مشتمل کتب میں شیخ سعدی کی گلستان اور بوستان کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔ یہ حکایت انہی سے منسوب ہے اور اپنے وقت کے ایک مشہور دولت مند حاتم طائی کی سخاوت اور فیاضی کا وہ قصّہ ہے جس میں مہمان نوازی اور ایثار و قربانی کا درس ملتا ہے۔

سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

حکایت کچھ اس طرح ہے کہ حاتم طائی کے پاس ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا تھا۔ وہ اس قدر خوبصورت قد آور، تیز رفتار اور اصیل تھا کہ جو اس کو دیکھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا۔ فی الحقیقت اس برق رفتار جانور کی نظیر نہیں ملتی تھی۔ اس گھوڑے کا شہرہ دور دور تک تھا۔

ایک دفعہ شاہِ روم کے دربار میں بھی حاتم کی بے مثل سخاوت اور اس کے بے نظیر گھوڑے کا ذکر نکل آیا۔ بادشاہ کا وزیر حاتم طائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کی شخصیت سے بہت مرعوب نظر آرہا تھا۔ بادشاہ کا موڈ اچھا تھا اور دربار کا ماحول خوشگوار تھا۔ بادشاہ اپنے وزیر کی زبانی حاتم طائی کی تعریفیں سنتا رہا مگر جب گھوڑے کا ذکر ہوا تو اچانک اپنے وزیر سے کہا کہ بغیر دلیل و ثبوت کے ڈینگیں مارنا رسوائی کا باعث بن سکتا ہے۔ میں حاتم سے یہ گھوڑا مانگوں گا۔ اگر اس نے دے دیا تو جانوں گا کہ واقعی وہ بڑا سخی اور ایثار کرنے والا آدمی ہے۔ اگر اس نے دینے سے انکار کیا تو سمجھوں گا کہ اس کی شہرت محض خالی ڈھول کی آواز ہے۔ چنانچہ اس نے ایک عقل مند قاصد آدمیوں کے ہمراہ روانہ کیا کہ وہ حاتم سے اس کا وہ بہترین اور پیارا گھوڑا مانگ لائیں۔ قاصد اور اگر کے ساتھی منزلوں پر منزلیں مارتے حاتم کے قبیلہ میں پہنچے اور رات کو حاتم کے ہاں قیام کیا۔

اس وقت تیز بارش ہو رہی تھی اور طوفانی ہواؤں کی وجہ سے ہر ذی نفس اپنے گھروں میں محصور تھا۔ گھر سے باہر قدم رکھنا ناممکن تھا۔ حاتم کے مویشیوں کا گلہ گھر سے کافی فاصلے پر چراگاہ میں تھا اور اتنے مہمانوں کے طعام کے لیے اس وقت گھر میں کوئی چیز نہ تھی۔ البتہ وہ مشہورِ زمانہ گھوڑا جس کا ذکر شاہِ روم کے دربار میں اس کے وزیر نے کیا تھا، اس کی قیام گاہ کے مخصوص احاطے میں موجود تھا۔ حاتم کو یہ گھوڑا بہت عزیز تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اسے اپنے کسی دوسرے اصطبل یا چراگاہ میں نہیں چھوڑتا تھا۔ یہ بات حاتم کی سخاوت اور مہمان نوازی سے بعید تھی کہ اس کے گھر آئے ہوئے لوگ بھوکے رہیں یا وہ ان کی خدمت میں کوئی کسر چھوڑے۔ حاتم طائی نے وہی گھوڑا ذبح کردیا اور مہمانوں کے سامنے خوان سجا کر پیش کر دیا۔ سب نے پیٹ بھر کر لذیذ کھانا کھایا اور رات گزاری۔

صبح ہوئی تو شاہِ روم کے قاصد نے حاتم سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ بادشاہ کی خواہش معلوم ہوئی تو حاتم پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ حسرت سے اپنے ہاتھ ملنے لگا اور بہت نادم نظر آیا۔

حاتم نے قاصد سے کہا، اے نیک بخت! تُو پہلے حرفِ مدعا زبان پر کیوں نہ لایا ؟ وہ گھوڑا تو میں نے گزشتہ شب تمہاری ضیافت کے لیے ذبح کر دیا، رات کو اسی کے کباب تم نے کھائے ہیں۔ افسوس کہ اس کے سوا کل رات میرے گھر کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ اور مجھے یہ گوارا نہ تھا کہ مہمان بھوکے رہیں۔

یہ سن کر قاصد جذباتی ہوگیا اور بے اختیار حاتم کے ہاتھ چوم لیے۔ حاتم طائی نے ان کو کہا کہ وہ بادشاہ تک اس کی معذرت پہنچائیں اور پھر ان کو بہت سے گھوڑے دے کر رخصت کیا۔

شاہِ روم کے قاصد کئی منزلیں طے کر کے دربار میں پہنچے اور وہاں یہ سارا قصّہ سنایا تو ہر ایک کی زبان پر حاتم کے لیے تحسین و آفرین کے کلمات تھے۔ شاہِ روم نے وزیر کے سامنے تسلیم کیا سعادت اور سخاوت حاتم طائی پر ختم ہے۔