حضرت معروف کرخی اور مجبور آدمی

maruf karkhi urdu story حضرت معروف کرخی

حضرت معروف کرخی کے زمانہ میں ایک شریف زادے پر کڑا وقت آ پڑا اور وہ دانے دانے کا محتاج ہو گیا۔ اسی عسرت کی حالت میں اس کے گھر میں ایک بچہ کی ولادت ہوئی۔ بیوی پہلے ہی فاقوں سے لاغر ہو رہی تھی اور زچگی کے بعد تو جیسے وہ نیم جاں‌ ہو گئی۔

مزید حکایات اور سبق آموز واقعات پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

دایہ نے کہا کہ اس کے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھا اور مقوی غذا نہیں دی تو بچنا محال ہے۔ یہ سن کر وہ غریب اور ناچار شخص اسی وقت روزی کی تلاش میں گھر سے نکل پڑا۔ ہنر اس کو کوئی آتا نہ تھا، مگر پہلے وہ ایک بڑے تاجر کے گھر کے کام سنبھالتا رہا تھا۔ اس کی موت کے بعد سے بے روزگار ہوگیا تھا۔ بدقسمتی سے چند ماہ کے دوران کسی نے اسے ایسی کوئی نوکری نہیں دی۔ اس روز وہ دکانوں‌ پر گیا کہ کوئی کام مل جائے، اور لوگوں سے مزدوری مانگتا پھرا جو کسی کام کے عوض چند دینار دے دیتے تو کھانے کے لیے کچھ لے کر گھر چلا جاتا۔ یہ نہ ہوا تو ایک دو لوگ جن سے جان پہچان تھی، ان کو اپنی بپتا سنائی اور کچھ بطور قرض طلب کیا۔ مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔

اسی پریشانی کے عالم میں وہ دریائے دجلہ کے کنارے پہنچا۔ وہاں ایک ملاح اپنی کشتی لئے بغداد کے مختلف محلّوں کے نام لے رہا تھا کہ کسی کو وہاں جانا ہو تو کشتی میں سوار ہو جائے۔ شریف زادے نے خودی کے عالم میں ملاح کو پکارا تو ملاح نے اپنی کشتی کنارے کے ساتھ لگا دی اور اس سے دریافت کیا کہ کس محلّہ میں جانے کا ارادہ ہے۔ وہ بیچارہ کیا جواب دیتا، بس ایک ٹُک ملاح کا منہ دیکھنے لگا۔ ملاح نے جھلّا کر کہا عجیب آدمی ہو، مجھے بلایا ہے تو میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ ملاح کی بات سن کر اس غریب کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور اس نے اپنی داستان مصیبت بلا کم و کاست کہہ ڈالی۔ ملاح کو اس پر رحم آگیا۔ اس نے شریف زادے کو کشتی پر بٹھا لیا اور کہا کہ میں تم کو ایک محلّہ میں پہنچائے دیتا ہوں، وہاں کی ایک مسجد میں شیخ معروف کرخی عبادت میں مشغول رہتے ہیں، ان کی خدمت میں حاضر ہونا، امید ہے تمہاری مشکل کا کوئی حل نکل آئے۔

شریف زادہ ملّاح کی بتائی ہوئی مسجد میں پہنچا اور وضو کر کے ایک کونے میں جا بیٹھا۔ حسبِ توقع شیخ معروف کرخی وہاں نماز پڑھ رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو اس مصیبت زدہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ روتا جاتا اور خود پر بیتنے والے حالات بتاتے جاتا۔ حضرت معروف کرخی اسے نہایت توجہ سے سنتے رہے۔ جب وہ خاموش ہوا تو آپ پھر نماز میں مشغول ہو گئے۔

اسی اثنا میں آسمان پر سیاہ گھٹا چھا گئی اور اس قدر بارش ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے۔ وہ غریب بڑا پریشان ہوا کہ بیوی کو ایڑیاں رگڑتے چھوڑ آیا ہوں۔ یہاں آکر بھی مقصد حاصل نہیں ہوا اور حضرت صاحب دوبارہ نوافل میں‌ مشغول ہوچکے ہیں۔ اب اس تاریک رات اور موسلادھار بارش میں خالی ہاتھ گھر کیسے جاؤں…. وہ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک سواری آکر رکی اور ایک شخص مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے شیخ معروف کرخی کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے فلاں شخص نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ آپ کو پانچ سو دینار نذر کروں تو وہ اسے اپنی قدر افزائی خیال کرے گا۔ حضرت معروف کرخی نے اس شخص سے کہا کہ میں یہ دینار قبول کرتا ہوں، اور اس غریب آدمی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ تھیلی میرے اس دوست کو دے دو۔ اس شخص نے جو دینار لے کر آیا تھا، حضرت کے کہنے پر دیناروں کی تھیلی اس شریف زادے کے ہاتھ میں دے دی اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔

اس کے مسجد سے چلے جانے کے بعد حضرت معروف کرخی نے پریشاں حال شخص سے فرمایا کہ بھائی اس تھیلی کو اپنے کام میں لا۔ اللہ نے تیری مدد کی ہے۔ دو وقت کی روٹی کو ترسا ہوا وہ شخص حضرت کرخی کے سامنے تعظیم سے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ ان کی اجازت ملتے ہی اس نے تھیلی کمر سے باندھی اور معروف کرخی کے لیے عزّت اور صحت کی دعائیں کرتا ہوا وہاں سے رخصت ہوا۔ اس نے بغداد کے بازار سے ضرورت کی تمام چیزیں خریدیں اور کشتی میں بیٹھ کر سیدھا گھر پہنچا۔ بیوی اس کے انتظار میں تھی اور جب خاوند کے ہاتھوں میں کھانے پینے کا سامان دیکھا تو اس کی آنکھوں‌ میں آنسو آگئے۔ خاوند نے چولھے کو بھڑکایا اور پکانے بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی بیوی سے پورا ماجرا بیان کیا تو وہ بھی معروف کرخی کو ہاتھ اٹھا کر دعائیں دینے لگی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اگلے روز اس شریف زادے نے ان دیناروں سے کچھ مال خریدا اور بازار میں فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس نے محنت اور دل جمعی سے کام کیا اور اللہ نے ایسی برکت دی کہ کچھ عرصہ بعد شہر کے مرکزی بازار میں ایک چھوٹی سی دکان کر لی۔ وہ نہایت فارغ البالی سے گزر اوقات کرنے لگا۔ ایک روز اس شخص کو وہ ملاّح یاد آیا جس نے اسے بغداد پہنچایا تھا۔ وہ دریا پر پہنچا اور اسے تلاش کرکے اس کے احسان کا بدلہ بھی چکا دیا۔

دونوں میاں بیوی کو جب بھی یہ واقعہ یاد آتا، وہ بے اختیار حضرت معروف کرخی کو دعائیں دینے لگتے۔

(یہ حکایت اولیا اللہ اور صوفیائے کرام سے منسوب اخلاقی اور نصیحت آمیز واقعات پر مشتمل ایک کتاب حکایاتِ صوفیا سے لی گئی ہے)