ذکرِ رفتگاں: جب سالک صاحب نے علّامہ اقبال کو حدیث سنائی

اردو کے ممتاز ادیب، جیّد صحافی اور بلند پایہ خطیب آغا شورش کاشمیری کے قلم سے کئی شخصایت کے تذکرے اور خاکے نکلے ہیں جس سے ان کے فن و افکار کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ شورش نے ایک مضمون عبدالمجید سالک جیسے ممتاز شاعر و ادیب اور صحافی پر بھی لکھا تھا۔ وہ اس میں سالک کی زبانی شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جو آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر ہے۔

ادبی مضامین اور اقتباسات پڑھنے کے لیے کلک کریں
شورش لکھتے ہیں: ہر شخص کا اندازہ اس کے دوستوں سے کیا جاتا ہے۔ سالک صاحب اوائل عمر ہی سے جن لوگوں کے ساتھ رہے وہ قلم کے لیے مایۂ ناز تھے۔ اقبال، ابوالکلام، ظفر علی خاں، حسرت موہانی، ممتاز علی۔ جس پایہ کے لوگ تھے وہ ان کے نام اور کام سے ظاہر ہے۔

سالک صاحب نے علامہ اقبال کے ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا، عمر کی آخری تہائی میں وہ ہر چیز سے دستبردار ہوگئے تھے۔ ان کے قلب کا یہ حال تھا کہ آن واحد میں بے اختیار ہو کر رونے لگتے، حضورؐ کا نام آتے ہی ان کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی، پہروں اشکبار رہتے۔ ایک دفعہ میں نے حدیث بیان کی کہ مسجد نبوی میں ایک بلّی نے بچے دے رکھے تھے، صحابہؓ نے بلی کو مار کر بھگانا چاہا، حضورؐ نے منع کیا۔

صحابہؓ نے عرض کی، مسجد خراب کرتی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اسے مارو نہیں، یہ ماں ہوگئی ہے۔ حدیث کا سننا تھا کہ علّامہ بے اختیار ہوگئے، دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ سالک صاحب کیا کہا؟ مارو نہیں ماں ہو گئی ہے، اللہ اللہ امومت کا یہ شرف؟ سالک صاحب کا بیان تھا کہ حضرت علّامہ کوئی پون گھنٹہ اسی طرح روتے رہے، میں پریشان ہو گیا۔ ان کی طبیعت بحال ہوئی تو مجھے بھی چین آیا، ورنہ جب تک وہ اشکبار رہے میں ہلا رہا گویا مجھ سے کوئی شدید غلطی سرزد ہوگئی ہو۔