چند تاجروں نے بیان کیا کہ ہم مختلف شہروں سے آکر مصر کی جامع عمرو بن العاص میں جمع ہو جاتے تھے اور باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک دن ہم باتیں کر رہے تھے کہ ہماری نظر ایک عورت پر پڑی جو ہمارے قریب ایک ستون کے نیچے بیٹی تھی۔ ہم میں سے ایک شخص نے جو بغداد کے تاجروں میں سے تھا، اس عورت سے کہا کیا بات ہے جو یہاں بیٹھی ہو۔
حکایات، سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے لنک کھولیں
عورت نے اس کی توجہ پا کر کہا، میں لاوارث ہوں۔ میرا شوہر دس برس سے مفقود الخبر ہے۔ مجھے اس کا کچھ بھی حال معلوم نہیں ہوا۔ قاضی صاحب کے یہاں پہنچی کہ وہ میرا نکاح کروا دیں مگر انہوں نے روک دیا ہے۔ میرے شوہر نے کوئی سامان نہیں چھوڑا، جس سے بسر اوقات کر سکوں۔ میں کسی اجنبی آدمی کی تلاش میں ہوں جو مجھ پر رحم کرے اور قاضی کے سامنے کہے کہ واقعی میرا شوہر مر گیا یا پھر یہ کہ اس نے مجھے طلاق دے دی ہے اور وہ اس بات کا گواہ ہے تاکہ قاضی مطمئن ہوجائے اور اس کی گواہی کے بعد مجھے نکاح کی اجازت دے دے۔ یا پھر وہ شخص یہ کہہ دے کہ میں اس کا شوہر ہوں اور پھر وہ اسی وقت مجھے قاضی کے سامنے طلاق دے دے تاکہ میں عدت کا زمانہ گزار کر کسی سے نکاح کر لوں۔
عورت سے یہ تفصیل سن کر اس شخص نے کہا کہ تو مجھے ایک دنیار دے دے تو میں تیرے ساتھ قاضی کے پاس جا کر کہہ دوں گا کہ میں تیرا شوہر ہوں اور تجھے طلاق دے دوں گا۔ یہ سن کر وہ عورت رونے لگی اور کہا خدا کی قسم! اس سے زیادہ میرے پاس نہیں ہے اور چار رباعیاں نکالیں (درہم کا چوتھائی حصّہ) تو اس نے وہی اس سے لے لیں اور اس عورت کے ساتھ قاضی کے یہاں چلا گیا۔ پھر وہ دیر تک ہم دوستوں سے نہیں ملا۔ بعد میں اس سے ہماری ملاقات ہوئی۔ ہم نے اس سے کہا تم کہاں رہے؟ اتنی دیر کے بعد آج ملے ہو۔
اس نے کہا چھوڑو بھائی میں ایک ایسی بات میں پھنس گیا جس کا ذکر بھی رسوائی ہے۔ ہم نے کہا ہمارے اصرار پر اس نے بیان کیا کہ میں اس روز جس عورت کے ساتھ قاضی کے یہاں پہنچا اور جب اس نے مجھ پر زوجیت کا دعوی کیا تو میں نے اس بھی اس کے بیان کی تصدیق کر دی۔ اس سے قاضی نے کہا کہ کیا تو اس سے علیحدگی چاہتی ہے؟
اس عورت نے کہا۔ نہیں واللہ! اس کے ذمہ میرا مہر ہے اور دس سال تک کا خرچہ۔ مجھے اپنا حق چاہیے۔ تب مجھے قاضی نے کہا کہ اس کا یہ سارا حق ادا کر، اور پھر تجھے اختیار ہے اسے طلاق دے یا نہ دے۔ میرا یہ حال ہو گیا کہ میں متحیر ہو گیا اور یہ ہمّت نہ کر سکا کہ اصل واقعہ بیان کر سکوں۔ میرے چپ ہوجانے اور حواس باختہ ہونے پر قاضی نے یہ اقدام کیا کہ مجھے کوڑے والے کے سپرد کر دیا۔ بالاخر دس دیناروں پر باہمی تصفیہ ہوا جو اس نے مجھ سے وصول کیے اور وہ چاروں رباعیاں جو اس نے مجھے دی تھیں، وہ وکلاء اور قاضی کے اہل کاروں کو دینے میں خرچ ہو گئیں۔ اتنی ہی مزید اپنے پاس سے دینا پڑیں۔ یہ سن کر ہم نے اس کا مذاق اڑایا۔ وہ اس قدر شرمندہ ہوا کہ مصر ہی سے چلا گیا۔
سبق
یہ دنیا اس فریبی عورت کی مانند ہے۔ بڑی مسکین صورت میں انسان کو پھسلاتی ہے اور کچھ لالچ دے کر اسے اپنے ساتھ بلا لیتی ہے جو انسان اس کے دھو کے میں آ جائے۔ وہ پھر اسی طرح کی طرح اپنا سب کچھ لٹا کر تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہتا۔
(اردو ترجمہ از کتاب الاذکیا ابن جوزی)