بمبئی میں، مَیں ایک یہودی مرید کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ مولانا شوکت علی مرحوم مجھ سے ملنے آئے۔ وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بڑھیا یہودن اپنی لڑکی کو لے کر آئی اور کہا کہ یہ لڑکی تین دن سے رو رہی ہے، سوتی نہیں ہے اور کھانا چھوڑ رکھا ہے۔
میں نے کہا اس کو ایک انگریز سود اگر سے محبت ہے اور اس نے اس انگریز سے شادی کا اقرار کر لیا تھا۔ اب ایک دوسری لڑکی کا خط انگریز کے پاس دیکھا اور اس رنج میں اس نے کھانا چھوڑ دیا اور رو رہی ہے ۔ وہ لڑکی بے تاب ہوگئی اور اس نے کہا ہاں ہاں ٹھیک ایسا ہی ہے اور میری مدد کرو ورنہ میں مر جاؤں گی۔ میں نے اس کو تعویذ دیا اور کہا کل شام کو تیرا اس انگریز سے ملاپ ہو جائے گا۔
جب وہ چلی گئی تو مولانا شوکت علی نے مجھ سے پوچھا، آپ کو کیسے معلوم ہو گیا کہ اس لڑکی کا تعلق کسی انگریز سوداگر سے ہے اور اس کے پاس کسی دوسری لڑکی کا خط دیکھ کر یہ لڑکی رو رہی ہے۔ میں نے کہا قیاس اور سمجھ، اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے، کیونکہ میں غیب کا علم نہیں جانتا۔ میں نے بڑھیا یہودن کے غریبانہ لباس کو دیکھا اور اس کی لڑکی کے امیرانہ لباس کو دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ لڑکی بہت قیمتی جواہرات کا زیور پہنے ہوئے ہے اور اس کی صورت بھی اچھی ہے اور اس کی عمر بھی شادی کے قابل ہے۔ تو میں نے قیاس کیا اس کو کسی سے محبت ہے اور وہ محبت کرنے والا انگریز ہے اور سود اگر ہے کیونکہ لڑکی کا لباس اور زیورات انگریزی پسند کے تھے اور سوداگر اس واسطے کہا کہ کوئی نوکری پیشہ انگریز اتنی قیمتی چیزیں اپنی محبوبہ کو نہیں دے سکتا تھا اور نئی روشنی کی عشق بازی میں تین چار چیزیں عام طور سے ہوا کرتی ہیں، کسی ناچ میں مرد کو کسی دوسری عورت سے مخاطب دیکھنا یا کسی سینما میں دیکھنا یا عشقیہ خط دیکھنا۔ ان میں سے ایک بات میں نے کہہ دی اور وہ اتفاق سے ٹھیک ہو گئی۔
(یہ ماجرا خواجہ حسن نظامی کی کتاب پروفیسر کیرو کی پیش گوئیاں سے نقل کیا گیا ہے)