اس کی پیدائش پر میں نے صبر کیا لیکن۔ ۔ ۔ ۔!! خواجہ سرا کی ماں نے دلخراش کہانی سنا دی

خواجہ سرا

ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا کا ذکر آتے ہی ذہن میں ناچ گانے والوں کا تصور ابھرتا ہے، انہیں پیدا کرنے والی مائیں ایسے بچوں کے بارے میں کیا سوچتی ہیں۔

اس حوالے سے نمائندہ اے آر وائی نیوز  نے خواجہ سراؤں کی ماؤں سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی جس پر انہوں نے اپنے دکھ اور جذبات کا کھل کر اظہار کیا۔

ایک خاتون کا کہنا تھا کہ میری 3 بیٹیاں اور 5 بیٹے ہیں شوہر کا انتقال بھی جلدی ہوگیا تھا تو خود محنت کرکے میں نے بچوں کو پالا۔

اپنے خواجہ سرا بیٹے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کو میں نے 8 کلاس تک پڑھایا قرآن کی تعلیم بھی دلائی لیکن جب اس کی بات چیت کا انداز اور چال ڈھال دیکھی تو پھر اسے گھر سے باہر نکلنے نہیں دیا۔

انہوں نے بتایا کہ ایک دن اس نے مجھ سے کہا کہ سلائی کا کام سیکھنا ہے میں خود نوکری کروں گا تو مجھے خوشی ہوئی۔

ایک اور خاتون نے بتایا کہ میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جو پیدائشی خواجہ سرا ہے میں نے اس کو خدا کی رضا سمجھ کر قبول کیا لیکن اس کے والد نے بہت برا منایا اور خاندان والے بھی طرح طرح باتیں کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نے اس ادارے میں  سلائی کا کام سیکھ کر یہی ملازمت کرلی اور اب اس کی تنخواہ سے ہی گھر کا خرچ چلتا ہے۔

بلوچستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے حقوق اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم سوسائٹی فار کمیونٹیز اسٹریتھننگ (ایس سی ایس پی ای بی) کے تحت خواجہ سراؤں کو باعزت روزگار کی فراہمی کیلیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ کے حصول، تعلیمی اداروں میں مخصوص نشستوں اورجائیداد سے وراثت اور ووٹ سمیت کئی حقوق دیئے گئے ہیں تاہم ان پرابھی تک عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے جس کی بڑی وجہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی ان حقوق اورقوانین بارے آگاہی کا نہ ہونا ہے۔