پاکستانی فلمی صنعت میں اداکار نذیر کو ایک قابل و باصلاحیت فن کار کے طور پر پہچانا جاتا ہے جنھوں نے فلم سازی اور ہدایت کاری کے شعبہ میں بھی نام کمایا۔ نذیر 26 اگست 1983ء کو وفات پاگئے تھے۔ بطور اداکار نذیر کی وجہِ شہرت 1935ء میں ریلیز کردہ فلم ’’چانکیہ‘‘ تھی۔
نذیر 1904ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام نذیر احمد خان تھا۔ نذیر نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز ایک خاموش فلم سے کیا اور اداکاری کے شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کے لیے 1933ء میں کلکتہ چلے گئے۔ یہ شہر اس دور میں فلم انڈسٹری کی وجہ سے ہر بڑے چھوٹے فن کار کا ٹھکانہ تھا۔ نذیر کو ان کے فلم ساز دوست کا تعاون حاصل تھا اور وہاں انھیں فلم ’’چانکیہ‘‘ میں کام مل گیا۔ اداکار نذیر نے اس فلم میں اپنی پرفارمنس سے خود کو باکمال فن کار ثابت کیا۔ یہ ایک کام یاب فلم تھی جس نے نذیر کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ان کی دیگر فلمیں چندر گپت، دہلی کا ٹھگ، پیاس اور اپنی نگریا وغیرہ بھی اسی دور میں ریلیز ہوئیں۔
1939ء میں اداکار نذیر نے اپنا فلمی ادارہ بنایا اور سندیسہ، سوسائٹی، آبرو، سلمیٰ، لیلیٰ مجنوں اور وامق عذرا نامی فلموں میں بطور اداکار نظر آئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے سورن لتا سے شادی کر لی۔ وہ اپنے وقت کی ایک کام یاب اور مقبول فن کار تھیں جن کے ساتھ نذیر کو فلمی جوڑی کے طور پر بہت پسند کیا گیا۔
قیام پاکستان کے بعد نذیر لاہور آگئے۔ یہاں انھوں نے ’’سچائی‘‘ کے نام سے اپنی پہلی فلم بنائی۔ اس کے بعد فلم ’’پھیرے‘‘ ریلیز ہوئی اور اس نے زبردست کام یابی حاصل کی۔ ان کے بعد نذیر نے انوکھی داستان، خاتون، شہری بابو، ہیر، صابرہ، نورِ اسلام، عظمتِ اسلام جیسی کام یاب فلمیں انڈسٹری کو دیں۔ فلمی ناقدین کے مطابق اداکاری کے ساتھ نذیر نے فلم سازی کے شعبہ میں بھی خوب کام کیا۔
فلمی دنیا کے اس باکمال فن کار کو لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔