آذر زوبی: معروف پاکستانی مصور اور مجسمہ ساز

پاکستان میں فنِ مصوری اور مجسمہ سازی میں جو چند نام اپنے کام کی بدولت ممتاز ہوئے ان میں آذر زوبی کا نام بھی شامل ہے۔ آذر زوبی کی ایک وجہِ شہرت درونِ خانہ آرائش بھی ہے اور یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اس کام کو بہت کم ایک شعبہ کے طور پر توجہ دی جاتی تھی۔

پاکستان کے اس معروف مصور اور مجسمہ ساز کو فائن آرٹسٹوں کے ساتھ ساتھ ادیبوں اور شاعروں میں بھی پہچانا جاتا تھا۔ اس کی وجہ آذر زوبی کا ادبی ذوق بھی تھا۔ آذر زوبی یکم ستمبر 2001ء کو کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی تدفین کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں کی گئی۔ اشفاق احمد جیسے افسانہ نگار اور ادیب زوبی کے دوستوں میں سے تھے۔اپنے ایک مضمون میں اشفاق احمد اپنی دوستی اور آذر زوبی کے فن سے متعلق لکھتے ہیں:

زوبی میرا دوست نہ بھی ہوتا تو بھی میں اس کو ایک بڑا فن کار ہی سمجھتا۔ حالانکہ میرے سمجھنے اور نہ سمجھنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ پھر بھی اس کو اصرار ہے کہ میں چار گواہوں کے سامنے اس امر کا اعلان کروں کہ زوبی ایک عظیم آدمی، ایک عظیم فن کار اور ایک عظیم تخلیقی قوت ہے۔ یہ بالکل زوبی کا بچپنا ہے ورنہ آپ خود دلیلِ آفتاب کے طور پر اس کے مرقعات کا جائزہ لے چکے ہیں۔ اب جب کہ ہم زندگی کے اس دور میں پہنچ چکے ہیں جہاں بس ایک جست کی کسر رہ جاتی ہے تو کچھ پرانی باتیں کہ دینے اور کر دینے میں کوئی مضایقہ نہیں۔

میٹرک پاس کرنے کے بعد میں نے اور روبی نے عہد کیا تھا کہ ہم اپنی اپنی لائن میں بڑے آدمی بننے اور شمالی ہندوستان کے Who’s Who میں داخل ہونے کے لیے سر توڑ کوشش کریں گے اور اگر نیا ملک پاکستان بن گیا تو اس کے دونوں حصوں کے معروف لوگوں کی صف اوّل یا زیادہ سے زیادہ صفِ دوم میں اپنا اپنا مقام ضرور حاصل کریں گے۔ میں تو خیر نوکریوں اور ملازمتوں کی ذلّتوں میں لتھڑتا رہا۔ اس لیے اس معاہدے کو پورے طور پر نبھا نہ سکا، لیکن زوبی نے اپنے زورِ عمل سے اور اپنی دن رات کی محنت سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ شمشیر زن جس میدان کو فتح کرنے کا تہیہ کرتا ہے اس کو فتح کر کے چھوڑتا ہے۔

زوبی بڑے غضب کا مصور ہے۔ اپنی شہرت اور ناموری کے لیے، اس نے جو تصویریں، جو مرقع اور جو مجسمے بنائے ہیں وہ آپ نے دیکھے ہیں، انھیں پسند کیا ہے، ان کی داد دی ہے۔ ان سے مسحور ہوئے ہیں، لیکن اس کی وہ تصویریں جو اس نے اپنی معصومیت کے دور میں بنائی تھیں وہ آپ کی نظر سے نہیں گزریں۔ شکوے کو آپ نے بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن یہ زوبی نہیں ہے۔ اس کا اصل وہ رنگ دار مرقعے ہیں جو وہ شہرت ناموری، جہدِ مسلسل، کوششِ پیہم اور تجویز اور پلاننگ کی سیڑھی سے اتر کر بناتا ہے اور کسی کو دکھاتا نہیں۔ کہا کرتا ہے یہ میری عبادت ہے اور عبادت کسی کو دکھا کر نہیں کیا کرتے۔ عبادت، ترقی کے لیے نہیں، سرخ روئی کے لیے کی جاتی ہے۔

آذر زوبی کا اصل نام عنایت اللہ تھا۔ انھوں نے 28 اگست 1922ء کو قصور کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے 1943ء میں میو اسکول آف آرٹ لاہور سے فائن آرٹ کی تعلیم مکمل کی اور پھر اسکالر شپ پر اٹلی چلے گئے۔1950ء سے 1953ء تک اٹلی میں زیرِ تعلیم رہے اور 1954ء میں پاکستان لوٹے تو یہاں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں اپنے فن پاروں کی پہلی سولو نمائش کی۔ بعد ازاں کراچی منتقل ہوگئے۔ ان کے مُو قلم نے کئی کتابوں کے سرورق، طغرا بنائے اور تزئین و آرائش بھی کی۔

آخری ایام میں آذر زوبی نے بڑے سائز کی ڈرائنگ بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جس کے بارے میں صحافی، آرٹ نقاد اور مضمون نگار شفیع عقیل لکھتے ہیں: ” یہ ڈرائینگیں یا اسکیچ بے لباس انداز کے تھے جو زوبی کا پسندیدہ موضوع تھا۔ وہ عورت کا بے لباس جسم بنانے میں کچھ زیادہ ہی دل چسپی لیتا تھا…. جو نیوڈ (nude) اسکیچ یا ڈرائینگیں بنا رہا تھا اور جس طرح کی بنا رہا تھا ان میں چار پانچ کا مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔ نہ موضوع میں کوئی تبدیلی ہوتی تھی، نہ اشکال میں کوئی فرق آتا تھا۔ نہ اجسام کے زاویے بدلتے تھے اور نہ خطوط میں کوئی تفریط ہوتی تھی۔ ایک عورت بیٹھی ہوتی تھی یا دو ہوتی تھیں اور چہروں کے خدوخال میں وہی یکسانیت ملتی تھی۔ اس نے یہ ڈرائینگیں سو کے لگ بھگ بنائی تھیں“ ایک اور جگہ لکھا ہے کہ ” تجریدی کام کرنے سے پہلے رئیلسٹک (realistic) میں مہارت ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اناٹمی (anatomy) سیکھنا بھی ضروری ہے الٹے سیدھے برش لگا دینے سے پینٹنگ نہیں بن جاتی۔“ انھوں نے ایک مقام اور آذر زوبی کے حوالے سے مزید لکھا: ” زوبی تجریدی آرٹ کے بہت خلاف تھا اور تجریدی کام کرنے والوں کو بے نقط سناتا رہتا تھا۔ اس سلسلے میں دل چسپ بات یہ ہے کہ خود اس کے اپنے اپنے بعض فن پارے ایسے ہیں جو تجریدی یا نیم تجریدی انداز میں بنے ہوئے ہیں۔ اس کا وہ کام جو پین ورک میں ہے، اس میں بہت سے اسکیچ اور ڈرائینگیں تجریدی (abstract) ہیں۔ خاص طور پر اس کی وہ السٹریشنز جو اس نے بعض کتابوں میں بنائی ہیں- مثلاً” جنم کنڈلی“ ، ”سرخ فیتہ“ اور ” موت سے پہلے“ وغیرہ میں۔ جب وہ تازہ تازہ اٹلی سے آیا تھا تو اس نے کئی اسکریپر ڈرائینگیں (scraper drawings ) بنائی تھیں- وہ سب تجریدی انداز کی ہیں جن میں سے بیشتر کو دیکھ کر مجسمے کا تصور اُبھرتا ہے۔“

آذر زوبی نے کراچی میں‌ 1956ء میں شعور کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔ انھوں نے کراچی میں آرٹس کونسل آف پاکستان کے اسکول آف آرٹس میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے اور اس اسکول کے پرنسپل رہے۔ 1968ء میں آذر زوبی نے اسکول آف ڈیکور کے نام سے مصوری، مجسمہ سازی اور درون خانہ آرائش کی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا تھا۔

1980ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے آذر زوبی کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔